یتیم کے حق میں جفا

امام علی رضا علیہ السلام سے سوال کیا گیا:مولا! مال یتیم کے کھانے کی سب سے کم مقدار کون سی ہے کہ جس کے سبب انسان ظالم کا مصداق بن جاتا ہے اور جس کے متعلق قرآن مجید میں خبردار کیا گیا ہے ؟ امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اس امر میں کم اور زیادہ دونوں برابر ہیں اس شرط کے ساتھ کہ اس شخص کی نیت یہ ہو کہ وہ اسے واپس نہیں لوٹائے گا۔

ولایت پورٹل: دین اسلام میں کسی دوسرے کے مال کو بغیر اس کے اصلی مالک کی اجازت کے کھانا اور استعمال کرنا قطعی طور پر حرام ہے لیکن یہ حکم یتیم کے سلسلہ میں بہت تأکید کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے چونکہ ایک طرف تو یہ کہ یتمیوں کو اس مال کی دوسروں کی نسبت زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور دوسری وجہ یہ کہ ان کے سر پر باپ کا مہربان سایہ نہیں ہوتا اور تیسرا سبب یہ کہ وہ معاشرہ میں اتنے نظر انداز کردیئے جاتے ہیں اور انہیں اتنا کچل دیا جاتا ہے کہ ان میں خود اپنے وجود سے دفاع کرنے کی طاقت و توانائی بھی نہیں رہتی۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے یتیم کے مال کے متعلق اپنے پیروکاروں سے خصوصی رعایت و احترام کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اگرچہ قرآن مجید میں  بہت سے مقامات پر دیگر گناہوں کے عقاب و عذاب سے انسان کو آگاہ کیا گیا ہے لیکن کتاب خدا کا جو انداز انذار یتمیوں پر بے جا تجاوز کرنے والوں کے سلسلہ میں وہ شاید اپنے آپ میں بینظیر ہو۔چنانچہ قرآن مجید نے یتیموں کا مال ہڑپ جانے والوں کو عذاب کے بارے میں بتاتے ہوئے کسی کنائے یا رمزی استعارے کا سہارا نہیں لیا ہے بلکہ مستقیم طور پر فرمایا ہے:’’ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا، وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا‘‘۔(سورہ نساء:۱۰)۔ جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھررہے ہیں اور عنقریب واصل جہّنم ہوں گے۔
ظلم کا مصداق
قرآن مجید کی مذکورہ آیہ کریمہ میں ظالم وہ لوگ ہیں کہ جو کسی بھی طرح یتیم کے مال میں بے جا تصرف کرتے ہیں اور ناحق ان کے مال کو کھانے یا برباد کردینے کا عزم رکھتے ہیں۔
نیز مذکورہ آیہ کریمہ میں کھانے سے مراد کھانا اور نگلنا ہی نہیں ہے بلکہ یہ آیت مال یتیم سے جتنے بھی فوائد اٹھائے جاسکتے ہوں ان سب کو شامل ہے اور صرف قرآن مجید نے مال یتیم کا ایک فائدہ یعنی کھانے کا بیان کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ غالباً کسی کے مال سے سب سے اہم فائدہ اسے کھاکر ہی اٹھایا جاتا ہے۔ورنہ کلیہ یہی ہے کہ ہر وہ فائدہ جو یتیم کے مال سے نا حق اٹھایا جائے وہ حرام اور غیر مشروع ہے۔
ایک اہم نقطہ یہ بھی ملحوظ رہے کہ قرآن مجید نے صرف مال یتیم کو ظالمانہ طریقہ سے کھانے کو منع فرمایا ہے  اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی مال یتیم کو استحقاقی طور پر کھایا جاتا ہے مثال کے طور پر قرض لیکر کھایا جائے یا اجرت کے طور پر یتیم سے کچھ مال حاصل ہو لہذا یہ سب ظلم کے مصادیق میں سے نہیں ہیں یا اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر یتیم کے یہاں اجرت کرکے مال کسب کیا جائے یا اس سے قرض لیا جائے اب وہ یتیم کا مال نہیں ہوگا بلکہ گویا وہ اپنا ہی مال کھا رہا ہے لہذا یہ آیت کریمہ ان لوگوں پر منطبق نہیں ہوتی۔
چنانچہ امام علی رضا علیہ السلام سے سوال کیا گیا:مولا! مال یتیم کے کھانے کی سب سے کم مقدار کون سی ہے کہ جس کے سبب انسان ظالم کا مصداق بن جاتا ہے اور جس کے متعلق قرآن مجید میں خبردار کیا گیا ہے ؟ امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اس امر میں کم اور زیادہ دونوں برابر ہیں اس شرط کے ساتھ کہ اس شخص کی نیت یہ ہو کہ وہ اسے واپس نہیں لوٹائے گا۔

 


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین