ولایت پورٹل: زندگی سے جڑی تلخی اور شیرینی اور اسکے نشیب و فراز بسا اوقات انسان کو اسکی ذمہ داریوں سے غافل کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اور کبھی انسان بیرونی مسائل میں اتنا الجھ کر رہ جاتا ہے کہ اپنے ہی گھر کے اندرونی مسائل کے بارے میں سوچنے تک کا موقع نہیں مل پاتا۔کبھی وہ چیزیں جو رتبہ کے اعتبار سے بہت بعد میں قرار پانا چاہیئے ان چیزوں کی جگہ لے لیتی ہیں جو سب سے مقدم ہیں مثلاً شوہر داری اور گھر گرہستی بالکل آخر میں چلے جاتے ہیں اور خاندانی مسائل اور دوست واحباب سے مربوط مسائل یا تعلیم کا سلسلہ یاپھر نوکری وغیرہ جیسی چیزیں اولین ترجیحات میں آجاتی ہیں اور پھر ایسے مسائل جنم لیتے ہیں جن کی بنا پر نہ گھر کی زندگی میں سکون مل پاتا ہے اور نہ باہر کی زندگی ہی میں چین نصیب ہوتا ہے اور یہ جملے سننے کو ملتے ہیں کہ ہمارا بھی کوئی گھر ہے یہ تو جہنم ہے زندگی اجیرن بن کر رہ گئی ہے وغیرہ وغیرہ
جبکہ دین کی نظر میں پہلی ترجیح گھر کی تعمیر اور اس میں پر سکون ایسی فضا کو فراہم کرنا ہے جہاں انسان کو آرام مل سکے تاکہ وہ انسان اپنے پروردگار کی اطاعت و بندگی بہتر سے بہتر طور پر کرسکے اسی لئے دینی تعلیمات میں شوہر کی اطاعت اور بچوں کی بہتر تربیت پر زور دیا گیا ہے اور ایک گھر میں تمام مسائل کا ذمہ دار شوہر کو قرار دیتے ہوئے اس کی رضا کے حصول کو جہاد و عبادت قرار دیا ہے۔
باوجود اس کے کہ گھر کے وہ مسائل جنکا تعلق ازدواجی زندگی سے نہیں ہے اور اسلام نے انہیں ایک عورت پر واجب قرار نہیں دیا ہے جیسے برتن مانجھنا،کھانا بنانا،کپڑے دھونا وغیرہ لیکن اگر کوئی از خود بڑھ کر یہ کام، گھر گرہستی کو بہتر بنانے کے لئے کرتا ہے تو دین اسے مستحسن نظروں سے دیکھتا ہے۔جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے کہ آپ نے گھر سے متعلق کاموں کو بانٹ لیا تھا باہر کے کاموں کو امام علی(ع) انجام دیتے تو گھر کے اندرونی امور کو آپ دیکھتی تھیں اس کے باوجود کے آپ وجہ تخلیق کائنات کی بیٹی تھیں یا خود وجہ تخلیق بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا لیکن آپ اپنے گھر میں ایک معمولی گھریلو خاتون کی طرح جو آپ سے ممکن ہوتا انجام دیتیں اور بسا اوقات تو گھر کے امور کی انجام دہی آپ پر شاق گزرتی لیکن پھر بھی گھر کے کاموں کو انجام دینے سے نہ رکتیں اتنا کام کرتیں اتنا کام کرتیں کہ ہاتھوں پر ورم آجاتا آپکو اپنے شوہر کی رضا کا اسقدر خیال رہتا کہ اگر کہیں خود ہی احتمال دیتیں کہ ممکن ہے میری کوئی بات شوہر کو بری لگی ہو تو خود ہی فرماتیں:’’استغفر اللہ و اعوذ ابداً‘‘ میں خدا کے حضور پناہ مانگتی ہوں اب اس بات کا اعادہ نہیں ہوگا شوہر کی رضا کا اتنا خیال تھا کہ جب آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں خود کو ممنوع الملاقات کر دیا تھا اور کسی کو عیادت تک کے لئے آنے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں اس وقت امام علی علیہ السلام نے جب آپ سے درخواست کی کہ کچھ نمایاں لوگ آپ سے ملاقات کے لئے آنا چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا:’’یا علی،البیت بیتک والحرۃ زوجتک افعل ما تشاء ‘‘۔
علی! یہ گھر آپکا گھر ہے اور میں آپکی شریک حیات ہوں جو آپکو مناسب لگے وہ کریں اگر ہمارے معاشرہ میں بھی یہی مزاج فاطمی حاکم ہو جائے تو کیوں نہ انسان کی زندگی کامیاب ہوگی جہاں بہت سے مسائل اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں زوجہ چاہتی ہے اس کی بات مانی جائے اور شوہر اپنی بات منوانا چاہتا ہے نتیجہ میں ایسی کھینچا تانی کا ماحول بن جاتا ہے کہ گھر کے اندر سے آپسی مفاہمت و پیار محبت کی فضا کی جگہ انتقام و انا و خود محوری کی فضا لے لیتی ہے اور یوں اچھا خاصا گھر جہنم بن جاتا ہے اور پھر وہ مسائل پیش آتے ہیں کہ سب تماشا دیکھتے ہیں۔
ہمارے لئے اگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی نمونہ عمل ہے تو زندگی کے ہر شعبہ میں نمونہ عمل ہونا چاہیئے تاکہ اس کے فوائد سماج اور معاشرہ میں دیکھے جا سکیں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح زندگی کے ہر محاذ پر ایک مجاہدانہ زندگی گزاری جاتی ہے چاہے وہ گھر میں ہو یا گھر کے باہر دونوں ہی جگہ آپ نے اپنے شوہر کی مرضی سے ہٹ کر ایک قدم نہیں اٹھایا اور دائرہ اطاعت شوہر میں رہتے ہوئے ایک ایسی زندگی کو محض اٹھارہ برس میں ہمارے لئے چھوڑ دیا جو رہتنی دنیا تک اپنی روشنی سے عالم حیات میں اجالا کئے رہے گی۔
کیا یہ کوئی معمولی بات ہے کہ کوئی زوجہ گھر گرہستی کے امور بھی بحسن و خوبی انجام دے اور پوری مشترکہ زندگی میں شوہر کو ذرا سی شکایت کا موقع نہ دے، شوہر کی مرضی کو سمجھنا اور اسکے مطابق عمل کرنا حیات فاطمی کا وہ رخ ہے جس پر اگر ہماری خواتین چلیں تو کبھی گھر میں نا اتفاقی نہیں پیدا ہو سکتی چنانچہ آ پ کو ہر وقت جس چیز کا خیال رہتا وہ یہ کہ علی(ع) کیا چاہتے ہیں؟ علی(ع) کی رضا کس چیز میں ہے؟ اور ایسا نہیں ہے کہ آپ کو شوہر کی رضا کا خیال رہتا بلکہ امام علی علیہ السلام کو بھی آپکی رضا کا خیال رہتا تھا اور اس بات کا ہمیشہ دھیان رکھتے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کیا چاہتی ہیں؟ یہ اور بات ہے کہ آپ نے کبھی اظہار نہ کیا کہ کیا چاہتی ہوں شاید یہی وجہ ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تھا کہ علی کو تم نے کیسا پایا تو آپ نے فرمایا: اے بابا بہترین شریک حیات اور ایک روایت میں ہے کہ جب حضور نے حضرت امیر المؤمنین(ع) اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ایک دوسرے کے بارے میں سوال کیا کہ ایک دوسرے کو کیسا پایا تو دونوں ہی نے ایک دوسرے سے اپنی رضایت کا اظہار کرتے ہوئے تحسین و تمجید کی۔
عام حالات میں شوہر کی مرضی کا خیال رکھنا اور ہوتا ہے اور دشوار ترین مرحلہ میں شوہر کی اطاعت اور منزل ہے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا نے سخت ترین گھڑی میں اپنے شوہر کی اطاعت کر کے بتایا دیا کہ آپکو یوں ہی سیدۃ النساء العالمین نہیں کہا گیا ہے بلکہ آپکا کردار اتنا بلند ہے کہ اسکے یہ سب القاب اسکی عظمت کو کسی حد تک ہی بتا سکتے ہیں ورنہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ فاطمہ(س)شرف کی کن منزلوں پر ہیں۔
وہ وقت کتنا سخت اور حساس تھا جب کچھ لوگ امام علی(ع) کو مسجد کی طرف گھسیٹ کر لے جا رہے تھے اور آپ بددعا کے لئے اپنے بابا کے مرقد پر آئیں لیکن جب علی(ع) نے یہ پیغام بھیجا کہ فاطمہ سے کہو بددعا کے لئے ہاتھ نہ اٹھائیں تو آپ نے فرمایا:’’خدا کی قسم میں اپنی جان کو آپکے لئے سپر بنا لوں گی اور ہمیشہ آپکے ساتھ رہوں گی اگر کسی مصیبت و بلا میں گرفتار ہوئے تب بھی میں آپکا ساتھ نہ چھوڑوں گی اور جیسی آپکی مرضی ہوگی وہی کرونگی۔
یہ ایام فاطمیہ جہاں بی بی دو عالم کی مصبیتوں کو یاد کرنے اور آپکے فراق میں غم منانے کے ہیں وہیں اس بات پر بھی توجہ دینے کے ہیں کہ آپکی عملی سیرت کیا تھی؟ اس لئے کہ آج ہمارے روز بروز زوال پذیر معاشرہ کا علاج جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی با برکت زندگی کے ان نقوش میں ہے جن پر اگر ہم گامزن ہو جائیں تو ایک بہترین گھرتشکیل دے سکتے ہیں، اور چند بہترین گھروں سے مل کر ہی ایک معاشرہ تیار ہوتا ہے۔
--------------------------------------------
منابع:
۱۔نہج الحیاۃ ح ۹۲
۲۔ شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ۳ ص ۲۵۷۔
۳۔لمراجعات ، ص ۳۰۳۔
۴۔ابن شهر آشوب - ج ٣ -ص ١٣١۔
۵۔کوکب الدری جلد ۱ ص ۱۹۶۔
تحریر:مولانا سید نجیب الحسن زیدی
گھر گرہستی اور کردارِ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
ہمارے لئے اگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی نمونہ عمل ہے تو زندگی کے ہر شعبہ میں نمونہ عمل ہونا چاہیئے تاکہ اس کے فوائد سماج اور معاشرہ میں دیکھے جا سکیں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح زندگی کے ہر محاذ پر ایک مجاہدانہ زندگی گزاری جاتی ہے چاہے وہ گھر میں ہو یا گھر کے باہر دونوں ہی جگہ آپ نے اپنے شوہر کی مرضی سے ہٹ کر ایک قدم نہیں اٹھایا اور دائرہ اطاعت شوہر میں رہتے ہوئے ایک ایسی زندگی کو محض اٹھارہ برس میں ہمارے لئے چھوڑ دیا جو رہتنی دنیا تک اپنی روشنی سے عالم حیات میں اجالا کئے رہے گی۔

wilayat.com/p/608
متعلقہ مواد
یکم ذی الحجہ،عقد حضرت زہرا(س) کی مناسبت پر خصوصی پیش کش:حضرت فاطمہ زہرا(س) کا عقد اور اس کے امتیازات
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین