پیغمبراکرم(ص) کی سادگی

علی(ع) کی نظر میں دنیا کی جتنی زیادہ خواہش ہوگی اس کے اخراجات بھی اتنے ہی زیادہ ہونگے،تکلفات میں اضافہ ہوتا جائے گا،اور دنیا کی طلب انسان کے وجود میں شدید سے شدید تر ہوتی جائے گی:‘‘ من کثرت شهوته ثقلت مؤنته‘‘جس کی شہوت اور خواہش زیادہ ہوگی اس کے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے ۔

ولایت پورٹل: سادہ زندگی قناعت اور کم خرچی، اسلام میں ایک اعلٰی قدر کے طور پر دیکھی گئی ہے،اور معصومین علیہم السلام ان لوگوں کی بڑی قدر و تمجید کرتے تھے جن کی زندگی سادہ،قناعت سے لبریز اور وہ محنتی اور سخت کوش ہوتے تھے، چنانچہ ایک مرتبہ کی بات ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے بزرگ صحابی جناب صعصعہ بن صوحان بیمار ہوئے،حضرت ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’بے شک تم بہترین دوست اور کم خرچ انسان ہو‘‘۔تاریخ یعقوبی،ج۲،ص۲۰۴) اور اسی طرح جب صعصعہ جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ اور آپ کو جب ان کی شہادت کی اطلاع دی گئی تو آپ ان کے سرہانے تشریف لائے اور فرمایا:’’صعصعہ بن صوحان! اللہ تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے کہ تم اپنی زندگی میں بڑی مشقت کرنے والے اور کم خرچہ کرنے والے انسان تھے۔( الاختصاص، ص79)
لہذا اس رو سے امیرالمؤمنین علیہ السلام نے صعصعہ کے دیگر تمام کمال کے درمیان ان کے کم خرچ اور محنتی ہونے کو بیان فرمایا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں سادگی کتنی اہم چیز ہوتی ہے چونکہ علی(ع) کی نظر میں دنیا کی جتنی زیادہ خواہش ہوگی اس کے اخراجات بھی اتنے ہی زیادہ ہونگے،تکلفات میں اضافہ ہوتا جائے گا،اور دنیا کی طلب انسان کے وجود میں شدید سے شدید تر ہوتی جائے گی:‘‘ من کثرت شهوته ثقلت مؤنته‘‘جس کی شہوت اور خواہش زیادہ ہوگی اس کے اخراجات بھی بڑھ جائیں گے ۔(غررالحکم، ج2، ص187)
ہادیان برحق نے کبھی دنیا سے دل لگی نہیں کی وہ ہمیشہ شہوات سے گریزاں رہے،زندگی کے ہر مرحلہ میں سادگی کو اپنا شعار بنا کررکھا چنانچہ امیرالمؤمنین(ع) رسول خدا(ص) کو سادہ زندگی گذارنے والوں کے لئے سب سے افضل نمونہ کے طور پر متعارف کرواتے ہیں اور اس سے پہلے کہ سرکار ختمی مرتبت(ص) کی سادگی کو بیان کریں،آپ نے سادگی کے سب سے اہم رکن اور اصل یعنی زہد اور دنیا سے منھ موڑنے اور دنیا سے دل نہ لگانے کو بیان فرمایا ہے،چونکہ اگر انسان کے وجود میں زہد نہ ہو تو سادگی ایک ڈھونگ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔سادگی اس وقت سچی اور حقیقی معنٰی میں متحقق ہوتی ہے جو زہد کے سبب پیدا ہوئی ہو اور اگر کسی انسان کی روح میں زہد کا عنصر موجود نہ ہو وہ پھر بھی سادگی کا اظہار کرے تو اس سے بڑا’’ خسر الدنیا و الآخرۃ‘‘۔ کا واضح مصداق کون ہوگا؟
حضرت علی(ع) پیغمبر اکرم(ص) کی سادہ زندگی کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:’’رسول خدا(ص) اور آپ کے خاندان پر اللہ کا درود و سلام ہو۔آپ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی طرح(تواضع کے ساتھ )بیٹھتے تھے،اپنے زخموں پر پٹی خود کرتے تھے،اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں کو ٹانکتے تھے،اور بغیر کجاوہ اونٹ پر سوار ہوتے تھے،رسول خدا(ص) کی کسی زوجہ کے گھر میں ایک ایسا پردہ لٹکا ہوا تھا جس پر بہت سے نقش و نگار بنے تھے آپ نے ایک زوجہ سے فرمایا:اس پردہ کو میری نظر سے اوجھل کردو کہ میں جب بھی اس کی طرف دیکھتا ہوں مجھے دنیا کی زینت یاد آجاتی ہے،آپ صلٰی اللہ علیہ و آلہ و سلم قلبی طور پر دنیا سے گریزاں تھے اور آپ نے دنیا کی یاد کو اپنے دل میں مار دیا تھا اور ہمیشہ یہ چاہتے تھے کہ دنیا کی آرائشیں آپ کی نظروں سے دور ہوجائیں‘‘۔(نهج البلاغه، خطبه 160)
حضرت پیغمبر اکرم(ص) کا دنیا سے بے توجہی اور سادہ زندگی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ’’حضرت کے سونے کا بستر ایک کھردری چٹائی تھی کہ جس کا کھردرا پن اور سختی حضرت کے روئے مبارک پر ظاہر ہوجاتی تھی چنانچہ سرکار سے عرض کیا گیا:یا رسول اللہ(ص) کیوں قیصر و کسریٰ تو حریر،دیباج اور مخمل کے نرم و نازک بستروں پر سوئیں اور آپ کے سونے کے واسطے ایسی کھردری چٹائی ہو کہ جو آپ کو آرام پہونچانے کے بجائے اذیت کرتی رہے؟
رسول خدا(ص) نے فرمایا:کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ یہ جلد گذر جانے والی دنیا سختیوں میں گذر جائے لیکن  وہ آخرت کہ جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے وہاں اصلی سکون و آرام میسر آئے‘‘۔(بحارالانوار، ج16، ص276)۔
تم شک نہ کرو کہ میں ان سے ہر طور بہتر ہوں اور اللہ کے نزدیک ان سے زیادہ محترم ہوں،لیکن مجھے دنیا کے تعلقات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے چونکہ ہماری زندگی اس دنیا میں اس مسافر کی طرح ہے کہ جو کچھ دیر کے لئے کسی درخت کے سائے کے نیچے آرام کرنے لگے اور جب سایہ ختم ہوجاتا ہے تو وہ مسافر اٹھ کر پھر اپنے مقصد کی طرف گامزن ہوجاتا ہے‘‘۔(بحارالانوار، ج16، ص282)
دنیا کی خوبصورتی،زینت، رنگینی سے یہ بے توجہی اور بے رغبتی اس چیز کی علامت ہے کہ رسول اکرم(ص) ان تمام قرآنی تعلیمات کی طرف متوجہ اور عامل تھے جن میں آپ کو سادگی کی طرف رغبت دلائی گئی ہے چنانچہ ایک آیت میں ارشاد ہوتا ہے:’’ و لاتمدن عینیک إلی ما متعنا به ازواجاً منهم زهره الحیوه الدنیا لنفتنهم فیه‘‘۔(طه/131) اور خبردار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالا مال کردیا ہے اس کی طرف آپ نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں کہ یہ ان کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزق اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے۔
حضرت علی علیہ السلام ایک خطبہ میں سرکار ختمی مرتبت(ص) کی اس طرح تعریف بیان کرتے ہیں:کہ دنیا کو رسول خدا(ص) کے سامنے پیش کیا گیا لیکن آپ نے اسے ٹھکرادیا چونکہ جب آپ نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالٰی دنیا کو پسند نہیں کرتا لہذا یہ آپ کی نظر میں بھی منفور ٹہری،اور جس چیز کو اللہ خوار سمجھتا ہے وہ آپ کی نظر میں بھی خوار و ذلیل ہوگئی۔جو چیز اللہ کی نظر میں حقیر ہے وہ آپ کی نظر میں بھی حقیر ہے‘‘۔(نهج البلاغه، خطبه 160)
سادہ زندگی گذارنے سے صراط مستقیم ، آسانی کے ساتھ طئے ہوجاتی ہے اسی وجہ سے رسول خدا(ص) نے فرمایا:’’نجی المخفون‘‘۔(بحارالانوار، ج74، ص55) جن کا سامان سفر کم ہوتا ہے وہ بہتر طور پر مقصد تک پہونچتے ہیں اور وہی اہل نجات بھی ہیں۔  

0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین