وہابیت کو پہونچنے والی تکفیری میراث کے مورث اعلیٰ بربَہاری کے کارناموں پر ایک نظر

آج ہم وہابیت کی شکل دیکھ رہے ہیں وہ ایک دم ہی وجود میں نہیں آئی بلکہ عالم اسلام میں احمد بن حنبل کے بعد ایک شدت پسند تفکر پروان چڑھا جس کے نتیجہ میں اس کے مکتب کے شاگرد اور علماء، نیز حکام جور نے بھی اپنے مظالم کو چھپانے اور بیت المال پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے اس تفکر کی بھر پور حمایت و اعانت کی ۔چنانچہ جہاں وہابیت کی بنیاد میں ابن تیمیہ کے تفکرات کے پتھر ملتے ہیں وہیں اس میں حنبلی نظریات کا گارا بھی نظر آتا ہے اور اس کے لئے کچھ بر بہاری جیسے مزدوروں کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے جو اس عمارت کو تعمیر کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔چنانچہ آج ہم شہر بغداد میں حنبلی علماء کے مشہور سربرابراہ اور وہابیت کا سنگ بنیاد رکھنے اور ڈھانچہ تیار کرنے نیز اس تکفیری تفکر کی میراث چھوڑتے والوں میں سے ابن حنبل کے بعد سب سے مؤثر شخص کا ذکر کررہے ہیں جسے تاریخ بربہاری کے نام سے یاد کرتی ہے۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! آج ہم وہابیت کی شکل دیکھ رہے ہیں وہ ایک دم ہی وجود میں نہیں آئی بلکہ عالم اسلام میں احمد بن حنبل کے بعد ایک شدت پسند تفکر پروان چڑھا جس کے نتیجہ میں اس کے مکتب کے شاگرد اور علماء، نیز حکام جور نے بھی اپنے مظالم کو چھپانے اور بیت المال پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے اس تفکر کی بھر پور حمایت و اعانت کی ۔چنانچہ جہاں وہابیت کی بنیاد میں ابن تیمیہ کے تفکرات کے پتھر ملتے ہیں وہیں اس میں حنبلی نظریات کا گارا بھی نظر آتا ہے اور اس کے لئے کچھ بر بہاری جیسے مزدوروں کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے جو اس عمارت کو تعمیر کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔چنانچہ آج ہم شہر بغداد میں حنبلی علماء کے مشہور سربرابراہ اور وہابیت کا سنگ بنیاد رکھنے اور ڈھانچہ تیار کرنے نیز اس تکفیری تفکر کی میراث چھوڑتے والوں میں سے ابن حنبل کے بعد سب سے مؤثر شخص کا ذکر کررہے ہیں جسے تاریخ بربہاری کے نام سے یاد کرتی ہے۔
ابو محمد حسن بن علی بن خَلَفِ بربہاری یہ بغداد کے حنبلیوں کا رئیس تھا اور اس کے اپنے کچھ خاص نظریات تھے اگر کوئی شخص اس کے عقائد اور نظریات کی مخالفت کرتا تھا تو اس کی شدت سے مخالفت کرتا تھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیتا تھا۔ اس کے ساتھی لوگوں کے گھروں کو ویران کردیتے تھے ۔ لوگوں کو خرید و فروخت سے بھی روکتے تھے اور اگر کوئی اس کی باتوں کو نہیں مانتا تھا تو اس کو بہت زیادہ ڈارتے تھے۔
بربَہاری کے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ وہ حضرت امام حسین(ع) پر نوحہ وگریہ و زاری اور کربلا میں آپ کی زیارت کو منع کرتا تھا اور نوحہ و مرثیہ پڑھنے والوں کے قتل کا حکم دیتا تھا۔
چنانچہ ’’خِلب‘‘نام کا ایک شخص نوحہ اور مرثیہ پڑھنے میں بہت ماہر تھا، جس کا ایک قصیدہ تھا جس کا پہلا مصرعہ یہ ہے:
’’اَیُّہَا الْعَیْنَانِ فَیضٰا وَاسْتَہِّلاٰ لاٰ تَغِیْضٰا‘‘
جو امام حسین(ع) کی شأن میں پڑھا کرتا تھا ، ہم نے اس کو کسی ایک بڑے گھرانے میں سناہے اس زمانہ میں حنبلیوں کے ڈر سے کسی کو حضرت امام حسین(ع) پر نوحہ و مرثیہ پڑھنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی، اور مخفی طور پر یا بادشاہ وقت کی پناہ میں امام حسین(ع) کی عزاداری برپا ہوتی تھی۔
اگرچہ ان نوحوں اور مرثیوں میں حضرت امام حسین(ع) کی مصیبت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تھا اور اس میں سلف کی مخالفت بھی نہیں ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود جب بربہاری کو اطلاع ہوئی تو اس نے نوحہ خوان کو تلاش کرکے اس کے قتل کا حکم دیدیا۔
اس زمانہ میں حنبلیوں کا بغداد میں اچھا خاصا رسوخ تھا جس کی بنا پر یہ لوگ ہمیشہ فتنہ و فساد کرتے رہتے تھے۔(۱) جس کا ایک نمونہ محمد ابن جَرِیر طبری صاحب تاریخ پر حملہ تھا:
طبری، اپنے دوسرے سفر میں طبرستان سے بغداد پہونچے اور جمعہ کے روز حنبلیوں کی جامع مسجد میں پہونچے وہاں پر ان سے احمد حنبل اور اس حدیث کے بارے میں جس میں خدا کے عرش پر بیٹھنے کا تذکرہ ہے ، نظریہ معلوم کیا گیا، تو انہوں نے جواب دیا جو احمد بن حنبل کی مخالفت بھی نہیں تھی لیکن حنبلیوں نے کہا: علماء نے اس کے اختلافات کو اہم شمار کیا، اس پر طبری نے جواب دیا: میں نے نہ خود اس کو دیکھا ہے اور نہ اس کے کسی مودر اعتماد صحابی سے ملاقات کی ہے جو اس بارے میں مجھ سے نقل کرتا اور خداوند عالم کے عرش پر مستقر ہونے والی بات بھی ایک محال چیز ہے۔
جس وقت حنبلیوں اور اہل حدیث نے ان کی یہ بات سنی تو ان پر حملہ شروع کردیا اور اپنی دواتوں کو ان کی طرف پھینکنا شروع کردیا، وہ یہ سب دیکھ کر وہاں سے نکل بھاگے، حنبلیوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی انھوں نے ان کے گھر پرپتھروں سے حملہ کردیا یہاں تک کہ گھر کے سامنے پتھروں کا ایک ڈھیر لگ گیا۔
بغداد کی پولیس کا افسر ’’نازوک‘‘ ہزار سپاہیوں کا لشکر لے کر وہاں پہنچا اور طبری کو ان کے شر سے نجات دلائی وہ پورے ایک دن وہاں رہا، اور حکم صادر کیا کہ ان کے گھر کے سامنے سے پتھروں کا ڈھیر ہٹایا جائے۔(۲)
حنبلی مذہب کے علماء مثلاً ابن کثیر اور ابن عماد وغیرہ نے بربہاری کے بارے میں بہت سی باتیں بیان کی ہیں جن میں سے بعض مبالغہ آمیز ہیں، ابن کثیر ان کو ایک زاہد ، فقیہ اور واعظ کہتے ہوئے لکھتے ہیں: چونکہ بربہاری کو اپنے باپ کی میراث کے سلسلے میں ایک شبہ پیدا ہوا جس کی بناپر انہوں نے میراث لینے سے انکار کردیا جبکہ ان کے باپ کی میراث ستّر ہزار (اور ابن عماد کے قول کے مطابق ۹۰ہزار) درہم تھی۔
اسی طرح ابن کثیرکا قول ہے:خاص و عام کے نزدیک بربہاری کا بہت زیادہ احترام اور عزت تھی ایک روز وعظ کے دوران اس کو چھینک آگئی تو تمام حاضرین نے اس کے لئے دعائے رحمت کرتے ہوئے جملہ ’’یرحمک اللہ‘‘        کہا جو چھینک آنے والے کے لئے کہنا مستحب ہے، اور یہ آواز گلی کوچوں تک پہونچی، اور جو بھی اس آواز کو سنتا تھا یرحمک اللہ کہتا تھا، اور اس جملہ کو تمام اہل بغداد نے کہنا شروع کردیا، یہاں تک کہ یہ آواز خلیفہ کے محل تک پہنچی، خلیفہ کو یہ شور شرابہ گراں گذرا اور کچھ لوگوں نے اس کے بارے میں مزید بدگوئی کی جس کے نتیجہ میں خلیفہ نے اس کو گرفتار کرنے کی ٹھان لی لیکن وہ مخفی ہوگیا اور ایک ماہ بعد اس کا انتقال ہوگیا۔(۳)
لیکن خلیفہ وقت کے ناراض ہونے اور اس کو گرفتار کرنے کے ارادہ کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ عام عقیدوں کی مخالفت کرتا تھا اسی وجہ سے خلیفہ نے اس کے خلاف اپنا مشہور و معروف حکم صادر کیا جس کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔
ابو علی مُسکُویہ متوفٰی ۳۲۳ ہجری کے حالات میں کہتے ہیں کہ اسی سال بَدرخَرشنی(داروغۂ شہر) نے بغداد میں یہ اعلان کروایا کہ ابو محمد بربہاری۔(۴) کے مریدوں میں کوئی بھی دوآدمی ایک جگہ جمع نہ ہوں بدر خرشنی نے ان کے مریدوں کو جیل میں ڈلوادیا لیکن بربہاری وہاں سے بھاگ نکلے یا پوشیدہ ہوگئے اس کی وجہ یہ تھی کہ بربہاری اور ان کے پیروکار ہمیشہ فتنہ و فساد کرتے رہتے تھے۔ اس گروہ کے سلسلے میں خلیفہ الراضی کا ایک فرمان صادر ہوا جس میں بربہاری کے مریدوں کے عقائد مثلاً شیعوں کی طرف کفر و ضلالت کی نسبت دینا اور آئمہ(ع) کی قبور کی زیارت وغیرہ کو ناجائز ماننا جیسے امور کا تذکرہ تھا اور ان کو اس بات سے ڈرایا گیا تھا کہ وہ اس کام سے باز آجائیں ، ورنہ ان کی گردن قلم کردی جائے گی اور ان کے گھر اور محلوں کو آگ لگادی جائے گی۔(۵)
ابن اثیر حنبلیوں کے بغداد میں فتنہ و فساد کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہیں کہ  ۳۲۳ ہجری میں حنبلیوں نے بغداد میں کافی اثر و رسوخ پیدا کرلیا اور قدرت حاصل کرلی، بدرخرشنی ، داروغۂ شہر نے دسویں جمادی الآخر کو فرمان صادر کیا کہ بغداد میں یہ اعلان کردیا جائے کہ بربہاری کے مریدوں میں سے دو آدمی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے، اور اپنے مذہب کے بارے میں کسی سے مناظرہ کرنے کا بھی حق نہیں رکھتے، اور ان کا امام جماعت نماز صبح و مغرب وعشاء میں بسم اللہ کو بلند اور آشکار کہے۔ لیکن بدرخرشنی کا یہ کام مفید ثابت نہیں ہوا بلکہ بربہاری کے مریدوں میں مزید فتنہ و فساد پھیل گیا۔
 ان کا ایک کام یہ تھا کہ وہ نابینا حضرات جو مسجدوں میں اپنی پناہ گاہ بنائے ہوئے تھے ان کو اس کام کے لئے آمادہ کرتے تھے کہ جو بھی شافعی مذہب مسجد میں داخل ہو، اس کو اتنا مارو کہ وہ موت کے قریب پہونچ جائے۔
ابن اثیر خلیفہ راضی کے حنبلیوں کے بارے میں فرمان سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے یوں تحریر کرتے ہیں کہ خلیفہ راضی نے بربہاری کے مریدوں پر سختی کی اور ان کو ڈرایا ، کیونکہ وہ خداوند عالم کی مثل اور تشبیہ کے قائل تھے اور خداوند عالم کو ہتھیلیوں اور دوپیر اور سونے کے جوتے اور گیسؤں والا مانتے تھے اور کہتے تھے کہ خداوند عالم آسمانوں میں اوپر جاتا ہے اور دنیا میں نازل ہوتا ہے، اسی طرح منتخب آئمہ پر طعنہ زنی کرتے تھے اور شیعوں کو کفر وگمراہی کی نسبت دیتے تھے اور دیگر مسلمانوں کو کھلی بدعتوں کی طرف دعوت دیتے تھے جن کا قرآن مجید میں کہیں تذکرہ تک نہیں اور آئمہ(ع) کی زیارت کو منع کرتے تھے اور زائرین کے عمل کو ایک برے عمل سے یاد کرتے تھے۔(۶)
بربہاری سن ۳۲۹ ہجری میں ۹۶؍سال کی عمر میں مرگیا، وہ کسی عورت کے گھر میں چھپا ہوا تھا، اور اس کو اسی گھر میں بغیر کسی دوسرے کی اطلاع کے غسل وکفن کے بعد دفن کردیا گیا۔(۷)
ابن اثیر اس سلسلہ میں کہتے ہیں: بر بہاری حنبلیوں کا رئیس جوپوشیدہ طور پر زندگی گذار رہا تھا  ۳۲۹ ہجری میں ۷۶ سال کی عمر میں فوت ہوا ، اور اس کو ’’ نصر قشوری ‘‘ کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔(۸)
قارئین کرام! آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ بربہاری کے بارے میں خلیفہ الراضی کا فرمان ان عقائد کی طرف اشارہ ہے جو بعد میں ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب کے ذریعہ ظاہر ہوئے(اور فرقہ وہابیت تشکیل پایا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔نشوار المحاضرہ،ج۲، ص۱۳۴۔
۲۔ارشاد یاقوت،ج۶،ص۴۳۴۔
۳۔البدایۃ و النھایۃ،ج۱۱،ص۲۰۱۔
۴۔سمعانی(مادہ بربہاری)۔
۵۔تجارب الامم،ج۵،ص۳۲۲۔
۶۔الکامل ،ج۶،ص ۲۴۸۔
۷۔المنتظم ابن الجوزی،ج۶،ص۳۲۔
۸۔الکامل،ج۶،ص۲۸۲۔
 


1
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین