سامرا کا مباہلہ

خلیفہ معتمد کو اب اپنی مسند کھسکتی ہوئی نظر آنے لگی پریشان ہوگیا ابھی فکر کررہی رہا تھا کہ اس نے ’’صالح بن وصیف‘‘ کو بلایا اور کیا: اس مشکل کا حل صرف ’’ابن الرضا‘‘۔(امام حسن عسکری(ع) کے ہاتھ میں ہے۔جتنا جلدی ہوسکے انہیں حاضر کرو۔ابن الرضا(ع) کو قیدخانہ سے خلیفہ کے دربار میں لایا گیا، خلیفہ نے دیکھتے ہی اپنی مسند چھوڑ دی اور دست بستہ عرض کی:یا ابا محمد(ع) آپ کے جد کی امت منحرف ہوا چاہتی ہے اسے بچا لیجئے!۔امام علیہ السلام نے بڑے اطمئنان سے فرمایا:’’جاثلیق اور اس کی جماعت سے کہو کہ وہ کل پھر صحرا میں آئیں‘‘۔یابن رسول اللہ! پھر دوبارہ صحرا میں بلائیں؟! مگر کس لئے؟دعا کرنے کے لئے!فرزند رسول! ان کئی دنوں میں کافی بارش ہوچکی ہے اور اب لوگوں کو مزید بارش کی ضرورت نہیں رہی۔فرمایا:میں جانتا ہوں! لیکن اللہ کی مدد سے میرا ارادہ یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے شکوک و شبہات کو زائل کردوں۔

ولایت پورٹل: عراق کا جگر سوز آفتاب اپنی تمام تمازت کے ساتھ لوگوں کے رنجیدہ چہروں کو مزید جلا رہا ہے اور نا قابل برداشت گرم ہوا کے تھپیڑے انسان تو کیا جانوروں کو اذیت پہونچا رہے ہیں چونکہ بہت دن ہوگئے لوگوں نے بارش کی چک چک کی آواز کو نہیں سنا ہے ایک قحط کا عالم ہے، تمام نہرے اور تالاب خشک ہوچکے ہیں اور تمام زمین ایک ریگذار میں تبدیل ہوچکی ہے تمام پیڑ پودے اور یہاں تک کہ کھیتی و فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔
اس دردناک و غمناک کیفیت میں عورت و مرد،پیر و جوان سب مسلسل روزہ رکھ کر نماز استسقاء پڑھنے کے لئے صحرا کی طرف اس امید میں بڑھ رہے ہیں کہ شاید آج بارش ہوجائے۔
ان سب کی خواہش صرف بارش ہے چنانچہ سب لوگ نماز کی طویل صفوں میں کھڑے ہوگئے۔گریہ و زاری کے عالم میں نماز کا آغاز ہوا اور کچھ دیر کے بعد نماز تمام ہوگئی۔
سبھی لوگوں نے اس امید میں آسمان کی طرف دیکھا کہ کہیں سے کوئی بادل کا ٹکڑا آئے اور اس گرم زمین کے غرور کو ٹھنڈا کردے لیکن کچھ ہی دیر میں ان سب کی امیدوں پر مایوسی نے سایہ کرلیا۔
پھر اگلا دن ہوا سب لوگ پھر صحرا کی طرف نماز پڑھنے کے لئے آئے دعائیں کیں لیکن کوئی اثر نہ ہوا اور اسی طرح تیسرے دن کا عمل بھی گذر گیا گویا آسمان اتنا سخت ہوگیا کہ ان بے چاروں کے حال پر ایک آنسو گرانے کے لئے تیار نہیں تھا۔
ان سب مسلمانوں کو اپنے ایک دیر سے کچھ راہب دیکھ رہے تھے اگرچہ بارش کی ضرورت تو انہیں بھی تھی لیکن کسی سبب وہ لوگ منتظر تھے کہ مسلمانوں کے دعا کرنے کے بعد ہم میدان میں کودیں گے۔اب مسلمان ناامید ہوکر اپنے اپنے گھر لوٹنا ہی چاہتے تھے کہ جاثلیق نامی ایک راہب نے لوگوں کو سانسیں ہی روک دی اور کہا آج بارش ضرور ہوگی،دیکھنا ہم عیسائیوں کی دعا میں کتنا اثر ہے۔
مسلسل تین دن ہوگئے مسلمان روزہ رکھ کر صحرا میں نماز استسقاء کے لئے آرہے ہیں اور گڑ گڑا کر اللہ سے دعا بھی کررہے ہیں لیکن ابھی تک ایک قطرہ بھی پانی نہیں برسا۔لہذا اگر یہ برحق ہوتے تو ابھی تک بارش آچکی ہوتی اب آج ہماری باری ہے تاکہ ہم اپنی(عیسائیت) کی حقانیت کو ثابت کرسکیں۔
اس نے اپنی بات ختم کی اور اپنے دیگر مسیحی علماء کے ساتھ ایک طرف نکل پڑے اور کچھ ہی دیر بعد عبادت کے آغاز کے لئے ناقوس بجایا گیا(عبادت کی گھنٹی) اور پھر وہ اپنے طریقہ کے مطابق عبادت میں مشغول ہوگئے اور اللہ سے بارش کے لئے دعا کی ابھی عبادت تمام بھی نہ ہوئی تھی کہ تند و تیز ہوائیں اپنے دوش پر بادلوں کی مشکیں لیکر آدھمکیں اور آسمان سے موسلادھار بارش ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا سامرا خوشیوں کی برسات میں نہا گیا۔
بڑا عجیب منظر تھا،گویا کوئی بڑا معجزہ ہوگیا ہو،اسی وجہ سے عیسائیوں میں ایک الگ طرح کی خوشی تھی،وہ اس بارش کو اسلام پر مسیحیت کی فتح تصور کرکے ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے اور اپنی کامیابی کا حوالہ دیکر گویا وہ مسلمانوں کو چڑا رہے تھے مسلمان بھی خوش تھے وہ بھی ان کی تعریف کرنے میں مشغول ہوگئے اور آہستہ آہستہ عیسائیت کے بارے میں جستجو کرنے لگے۔
عیسائی راہبوں نے مسلمانوں کے دلوں کو تسخیر کرنے کے لئے اگلے دن پھر اسی صحرا میں عام عبادت کا اعلان کیا ،چنانچہ حسب سابق پھر عبادت انجام دی، دعا کی اور بارش ہونے لگی آج تو بارش کل سے بھی زیادہ تھی اور اتنی شدت کے ساتھ ہوئی کہ پہاڑیوں کے دامن سے بھی چشمے جاری ہوگئے اور نہروں اور تالاب میں برسات کے موسم کی طرح مینڈک ٹر ٹر کرنے لگے۔
اب تو کیا تھا کہ مسلمان اسے عیسائیت کے معجزہ کے طور پر دیکھ رہے تھے اور مسلمان اب مسیحیت کی طرف مائل ہوا چاہتے تھے تو یہ خبر دربار تک پہونچی خلیفہ معتمد کو اب اپنی مسند کھسکتی ہوئی نظر آنے لگی پریشان ہوگیا ابھی فکر کررہی رہا تھا کہ اس نے ’’صالح بن وصیف‘‘ کو بلایا اور کیا: اس مشکل کا حل صرف ’’ابن الرضا‘‘۔(امام حسن عسکری(ع) کے ہاتھ میں ہے۔(1) جتنا جلدی ہوسکے انہیں حاضر کرو۔
ابن الرضا(ع) کو قیدخانہ سے خلیفہ کے دربار میں لایا گیا، خلیفہ نے دیکھتے ہی اپنی مسند چھوڑ دی اور دست بستہ عرض کی:یا ابا محمد(ع) آپ کے جد کی امت منحرف ہوا چاہتی ہے اسے بچا لیجئے!۔(2)
امام علیہ السلام نے بڑے اطمئنان سے فرمایا:’’جاثلیق اور اس کی جماعت سے کہو کہ وہ کل پھر صحرا میں آئیں‘‘۔
یابن رسول اللہ! پھر دوبارہ صحرا میں بلائیں؟! مگر کس لئے؟
دعا کرنے کے لئے!
فرزند رسول! ان کئی دنوں میں کافی بارش ہوچکی ہے اور اب لوگوں کو مزید بارش کی ضرورت نہیں رہی۔
فرمایا:میں جانتا ہوں! لیکن اللہ کی مدد سے میرا ارادہ یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے شکوک و شبہات کو زائل کردوں۔
اور ہاں! ساتھ میں لوگوں کو بھی بلایا جائے۔
اسی وقت خلیفہ ’’صالح بن وصیف‘‘ کی طرف دیکھ کر آمرانہ انداز میں کہتا ہے:’’عیسائی راہبوں کو اطلاع دو کہ وہ کل صحرا میں ضرور آئیں اور منادی سے یہ اعلان عام بھی کروا دیاجائے کہ تمام لوگ حقیقت کو جاننے کے لئے کل مذکورہ جگہ پر حاضر ہوں۔
اگلے دن کا سورج نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا صحرا لوگوں سے بھر گیا گویا ایک محشر برپا ہے اور دوسری طرف سے عیسائی راہب اپنے مخصوص لباس پہن کر بڑے نخوت و غرور کے ساتھ لمبی لمبی صلیبیں گردنوں میں لٹکائے آدھمکے۔اور وہ مسلمانوں کو دیکھ کر زیر لب مسکرا رہےتھے اور تمام راہب اشاروں ہی اشاروں میں ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے اور جاثلیق مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلا ہلا کر ان کی باتوں کی تأئید کررہا تھا۔
اور صحرا کا منظر یہ تھا کہ ایک طرف مسلمان جمع تھے جو خلیفہ کے آنے کا انتظار کررہے تھے  اور دوسری طرف عیسائیوں کے ساتھ ان کے پیروکار،اور کچھ مسلمان تو آپس میں چی میگوئیاں کررہے تھے:
کیوں ہمیں یہاں بلایا گیا ہے؟کیا پہلے ہم نے عیسائیوں کو نہیں آزمایا تھا؟
دوسرا جواب دیتا ہے: ہمیں اس واسطے بلایا گیا ہے  تاکہ تمام لوگ، خلیفہ ساتھ ملکر عیسائی مذہب قبول کرلیں۔
اس کی باتوں پر ہنسنے والوں کی آواز صحرا میں گونجنے لگی ایک مؤمن کو گراں گذرا کہا : اگر تم لوگ تھوڑا صبر سے کام لو تو آج تمام مشکل حل ہوجائے گی آج دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے گا آج ہمارے درمیان ابن الرضا ہیں جو رسول خدا(ص) کے بہترین وارث ہیں۔کیا تم نے اپنے بزرگوں سے مباہلہ کا واقعہ نہیں سنا کہ جس میں نجران کے عیسائیوں کو فضیحت ناک شکست ہوئی تھی۔(3)
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھی کہ امام حسن عسکری(ع) کا چہرہ نورانی نمودار ہوا لوگوں نے پہچانا۔اور ساتھ میں خلیفہ اور اس کے درباری بھی ہیں امام حسن عسکری(ع) نے حکم دیا کہ جاثلیق اپنی جماعت کے ساتھ اپنی دعا کا آغاز کرے تاکہ پھر اللہ بارش نازل کردے ،امام علیہ السلام کا حکم پاکر سب کے ہاتھ اٹھ گئے جیسے ہی آسمان کی طرف ہاتھ اٹھے صاف شفاف آسمان پر بادل کے بگولے آنا شروع ہوگئے اور مروارید کے دانوں کی طرح بوندے ٹپکنے لگیں۔سب کی نگاہیں امام عسکری کے چہرے پُر نور کی طرف مرکوز ہیں کہ کیا حکم دیتے ہیں یک بیک لبوں کو جنبش ہوئی اور فرمایا:’’جاؤ اس کی انگلیوں کے درمیان جو چیز ہے اسے لے لو! غلام دوڑے اور لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ایک سیاہ ٹکڑا اس کے ہاتھوں سے برآمد کرلیا گیا اور امام کے سپرد کردیا گیا امام نے بڑے احترام کے ساتھ اسے دیکھا گویا اس سے قدیم آشنائی ہے اور پھر نہایت احترام کے ساتھ ایک کپڑے میں لپیٹ دیا اور راہبوں سے فرمایا:’’جناب اب دعا کیجئے!‘‘۔
جاثلیق نے دوبارہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے لیکن اب آسمان پھر صاف ہوچکا تھا اور سورج نے اپنی کرنیں دکھا کر راہبوں کو چرھانا شروع کردیاتھا۔
یہ منظر دیکھ کر جاثلیق اور دیگر راہبوں کے چہروں سے رنگ اڑ گئے چونکہ اب ان کے سامنے انہیں لوگوں کی ملامتیں تھیں کہ جو ان کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے تھے۔غرض اپنے مصلے سمیٹے اور اپنے چرچ کے راہی ہوئے۔
اب سب کی نگاہیں امام کے چہرے پر مرکوز ہوگئی یابن رسول اللہ! یہ کیا تھا؟
فرمایا:یہ ایک نبی کی ہڈی تھی کہ جسے راہبوں نے قبرستان سے اٹھایا تھا اور یہ اس ہڈی کا اثر تھا۔
خلیفہ کی نگاہیں ابھی ہڈی پر ہی تھیں اور اس نے امام کی رہائی کا حکم دیدیا امام نے اس فرصت سے استفادہ کیا مجھے تیری طرف سے رہائی تبھی منظور ہے جب تو میرے دیگر ساتھیوں کو بھی چھوڑ دے چنانچہ اب اس کے سامنے امام کی بات ماننے کے علاوہ کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا۔(4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔امام محمد تقی، علی نقی اور حسن عسکری علیہم السلام کو احتراماً ابن الرضا کہا جاتا ہے۔
2۔امام حسن عسکری(ع) کی کنیت۔
3۔رجوع کیجئے:سورہ آل عمران :61۔
4۔مناقب آل ابیطالب، ج 4، ص 425؛ اثبات الهداة، شیخ حرّ عاملی، شرح و ترجمه احمد جنّتی، ج 6۔

0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین