ولایت پورٹل: دیگر مذاہب کے برخلاف دین اسلام میں خواتین ایک عظیم قداست و شرافت کی حامل سمجھی جاتیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے اسم ’’امین‘‘ کی مظہر شمار ہوتی ہیں لہذا انہیں اس امانت الہیہ کا لحاظ کرتے ہوئے ظاہری اور باطنی شیاطین کے وسوسوں سے خود کو بچانے کی کوشش کرنا چاہیئے چونکہ شیاطین حریم شریعت،عقل اور اخلاق کو توڑ کر اس عظیم الہی امانت کو ضائع کرنا چاہتے ہیں۔
امام زمانہ(عج) سے منسوب ایک معروف دعا:’’ اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا تَوْفِیقَ الطَّاعَةِ...‘‘ ہے۔اس مبارک اور خوبصورت دعا کا ہر ایک فقرہ زمانہ غیبت میں اپنے امام(عج) کا انتظار کرنے والوں کی ذمہ داری اور فرض کی نشاندہی کررہا ہے اور حکومت امام زمانہ(عج) کے سائے میں زندگی گذارنے والوں کا طریقہ کار بیان کررہا ہے۔
اسی مبارک اور اہم دعا میں معاشرہ کی ہر صنف اور ہر ایک گروہ سے تعلق رکھنے والوں کے لئے دعا ہے وہیں اس میں اپنے امام کا انتظار کرنے والی خواتین کے لئے یہ فقرہ اور فراز ملتا ہے:’’ وَ عَلَى النِّسَاءِ بِالْحَیَاءِ وَ الْعِفَّة‘‘۔اے پروردگار خواتین کو شرم، حیا اور عفت کی توفیق عطا فرما۔
قارئین کرام! جیسا کہ آپ واقف ہیں کہ ہمارے معاشرہ کی آدھی آبادی خواتین سے تشکیل پاتی ہے لہذا کسی بھی معاشرہ کی فلاح و صلاح میں اس کی خواتین کا کردار مردوں کے برابر ہوتا ہے لہذا ان کا طریقہ زندگی اور افکار و اعمال کسی بھی معاشرہ کی سعادت یا شقاوت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس وجہ سے کہ خواتین معاشرہ میں ایک ماں یا بیوی کا کردار اچھی طرح ادا کرسکے تو اسے بہت سے وسائل سے مجہز و لیس ہونا ضروری ہے کہ ان میں سب میں اہم ترین حیا اور عفت ہیں۔
قرآن مجید کی آیات کا اگر بادقت مطالعہ کیا جائے اور ان میں تدبر کیا جائے تو ہمیں اس خصوصیت(یعنی حیا اور عفت) پر خصوصی تأکیدات ملتی ہیں اور اس کے لئے بہت سے آثار،فوائد اور برکات ذکر ہوئے ہیں چنانچہ اللہ تعالٰی سورہ مبارکہ قصص کی ۲۵ ویں آیت کریمہ میں جناب شعیب(ع) کی بیٹیوں کے وقار و حیار کی طرف اشارہ فرماتا ہے:’’ فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔(موسیٰ کے لب ابھی دعا کر ہی رہے تھے کہ دیکھا)ان میں سے ایک کمال وقار و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور کہا:میرے بابا آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ کے پانی پلانے کی اجرت دے دیں۔
اس کے علاوہ ہمارے روائی منابع میں اس صفت’’حیا و عفت‘‘ پر بہت تأکید کی گئی ہے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان بہشتی چیز ہے پس با ایمان اور با حیا شخص جنتی ہے‘‘۔(۱)
اور اسی طرح امام علیہ السلام سے ایک دیگر حدیث میں نقل ہوا ہے کہ:’’ حیا اور ایمان ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں اور اگر ان میں سے ایک ضائع ہوجائے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔(۲)
لہذا مذکورہ بالا تأکیدات کے پیش نظر اور اس وجہ سے کہ خواتین کسی بھی معاشرہ کی سلامتی و امن میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ان کا ان صفات(حیا و عفت) سے آراستہ ہونا بہت ضروری ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’اگرچہ زیور حیا و عفت سے مزین ہونے کے لئے مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا لیکن اس صفت سے مزین ہونا خواتین کے لئے زیادہ احسن ہے‘‘۔(۳)
حضرت آیت اللہ العظمٰی جوادی آملی(حفظہ اللہ) اپنی معروف کتاب’’ امام مهدی(عج)؛ موجود موعود‘‘ میں اس دعائے مبارکہ:’’ اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا تَوْفِیقَ الطَّاعَةِ...‘‘ کی شرح بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:خواتین اسلامی معاشرہ کا ایک اہم حصہ و جزء ہیں اور اس وجہ سے کہ کسی بھی معاشرہ و سماج کے ذہنی سکون و اطمئنان کے تکمیل کرنے میں خواتین کا ایک اہم کردار ہوتا ہے نیز آج کی نسل کی اصلاح اور آئندہ نسلوں کی تقدیر ان کی اصلاح سے وابستہ ہوتی ہے ۔اس درمیان جو چیز کسی بھی معاشرہ کے لئے سب سے بڑی آفت میں تبدیل ہوسکتا ہے اور ایک اتنی بڑی تعداد کہ جو کسی بھی فرد یا معاشرہ کی سعادت کی ضامن بن سکتی ہے، اسی کو معاشرہ کے زوال و انحطاط میں تبدیل کردینا ہے، بے شک خواتین میں ان صفات کا فقدان ہے کہ امام عصر(عج) جنہیں ایک منتظر امت کی خواتین کے لئے ضروری شمار کرتے ہیں اور اسی کے لئے پروردگار کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں۔
الف)۔حیا: حیا کا مطلب نفس کو ہر طرح کی آلودگی،برائی اور عیب سے بچانا ہے۔اپنے امام کا انتظار کرنے والی خواتین چونکہ اسمائے جمالی خدا کی مظہر و امانتدار ہیں انہیں اس امانت الہی کی حفاظت کرنا چاہیئے تاکہ وہ ظاہری و باطنی شیاطین کے وسوسوں سے کہ جو حریم شرع و عقل و اخلاق کو پھلانگنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں اور اس امانت الہی کو ضائع کرنے میں مصروف ہیں ان سے اپنے کو بچانا چاہیئے لہذا ہر وہ عمل جو تعلیمات قرآن و عترت کے خلاف ہو وہ شیطان کا جال شمار ہوتا ہے:’’ و علی النساء بالحیاء‘‘۔
ب)۔عفت:اللہ تعالٰی کی آخری حجت کا انتظار کرنے والی خواتین حریم عفت کی محافظ و پاسبان ہیں،عفت کی حفاظت یعنی اپنے نفس کو شہوات سے بچانا منتظر خواتین کے لئے ایک گرانقدر فضیلت شمار ہوتی ہے چونکہ بسا اوقات مڈرن جاہلیت نے خواتین کو فریب دینے کے لئے طرح طرح کے جال تیار کررکھے ہیں چنانچہ خواتین کا سب سے بڑا دغدغہ اور ان کا سب سے بڑا افتخار گوہر عفت و وجود کی حفاظت ہونا چاہیئے۔
مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں یہ بات کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اپنے امام کا انتظار کرنے والی خواتین کی ذمہ داریاں بہت سنگین ہیں اگر وہ خود اپنے وجود سے غفلت برتیں تو انتظار کے راہیوں کو نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
خواتین کو یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہیئے کہ عفت،حیا حجاب یہ خواتین کے لئے ایک محکم قلعہ ہے جس میں وہ وسوسہ و زہر آلود نظروں سے محفوظ رہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب شہزادی کونین سے رسول اللہ(ص) نے دریافت کیا:فاطمہ! یہ بتاؤ کہ عورت کے لئے سب سے بہتر چیز کیا ہے؟عرض کیا:’’ اَن لا تَری رَجلا و لا یَراها رَجُل‘‘۔(ایک خاتون کے لئے سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ نہ وہ کسی نامحرم مرد کو دیکھے اور نہ کوئی نامحرم اسے دیکھے)۔ (4)۔شہزادی کونین کا یہ فرمان تاکید کررہا ہے کہ عورت و مرد کے روابط کے درمیان حیا و عفت حاکم ہونا چاہیئے۔اور ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ عورت بالکل گھر سے باہر نہ نکلے بلکہ مطلب یہ ہے جتنا ممکن ہو یہ اتفاق کم رونما ہو چونکہ یہ امر وسوسہ شیطانی کی آماجگاہ ہوتا ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں خود رسول اللہ(ص) کی زوجات کو حکم دیا جارہا ہے کہ:’’ اے زنانِ پیغمبر تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمہارا مرتبہ کسی عام عورت جیسا نہیں ہے لہٰذا کسی آدمی سے لگی لپٹی بات نہ کرنا کہ جس کے دل میں بیماری ہو اسے لالچ پیدا ہوجائے اور ہمیشہ نیک باتیں کیا کرو‘‘۔(5)
پس وہ خواتین جو اپنے آخری امام کا انتظار کررہی ہیں اور جن کی آغوش میں ایک منتظر نسل پروان چڑھ رہی ہے ان سے یہی توقع ہے کہ وہ نجابت، حیا و پاکیزگی کا نمونہ ہوں اور وہ خواتین جو اپنے کو حضرت زہرا(س) کی چاہنے والی اور آپ کی شیعہ سمجھتی ہیں انہیں پردہ و عفت کا خاص خیال رکھنا چاہیئے اور اگر ایسا نہ کیا تو ان کے لئے خدا رسول خدا(ص) اور حجت خدا امام زمانہ(عج) کی رضا کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1-الكافی، ج2، ص106، باب الحیاء۔
2- الكافی، ج2، ص106۔
3- إرشاد القلوب إلى الصواب، ج1، ص: 193۔
4-بحارالانوار۔
5-احزاب، آیه 32۔