بصیرت و وفا حضرت عباس(ع) کی دو واضح خصوصیات تھیں: رہبر انقلاب

حضرت ابوالفضل العباس(ع) کی بصیرت کہاں ہے؟یوں امام حسین(ع) کے تمام اصحاب بابصیرت تھے،لیکن حضرت ابوالفضل نے اپنی بصیرت کا سب سے زیادہ مظاہرہ کیا چنانچہ تاسوعا کے دن آپ کو آکر یہ خبر دی گئی کہ میں آپ کے لئے امان کا پروانہ لایا ہوں۔اگر کوئی اور ہوتا تو اس فرصت سے فائدہ اٹھا کر اپنی جان بچانے کی سوچتا۔لیکن آپ نے اس طرح شمر کو لتاڑا کہ وہ پشیمان ہوگیا اور فرمایا: شمر! بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں حسین(ع) سے جدا ہوجاؤ۔وائے ہو تجھ پر اور تیرے امان نامہ پر!

ولایت پورٹل: حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کے سلسلہ سے آئمہ معصومین (ع) سے منقول زیارات اور احادیث میں آپ کی دو اہم خصوصیات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے:
۱۔بصیرت
۲۔وفا
حضرت ابوالفضل العباس(ع) کی بصیرت کہاں ہے؟یوں امام حسین(ع) کے تمام اصحاب بابصیرت تھے،لیکن حضرت ابوالفضل نے اپنی بصیرت کا سب سے زیادہ مظاہرہ کیا چنانچہ تاسوعا کے دن آپ کو آکر یہ خبر دی گئی کہ میں آپ کے لئے امان کا پروانہ لایا ہوں۔اگر کوئی اور ہوتا تو اس فرصت سے فائدہ اٹھا کر اپنی جان بچانے کی سوچتا۔لیکن آپ نے اس طرح شمر کو لتاڑا کہ وہ پشیمان ہوگیا اور فرمایا: شمر! بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں حسین(ع) سے جدا ہوجاؤ۔وائے ہو تجھ پر اور تیرے امان نامہ پر!
بصیرت کا ایک موقع وہ تھا  کہ جب آپ نے اپنے تینوں بھائیوں سے فرمایا کہ وہ آپ سے پہلے میدان میں جاکر شجاعت کے جوہر دکھائیں اور جہاد کریں۔چنانچہ وہ گئے اور جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔آپ جانتے ہیں کہ حضرت عباس(ع) اور آپ کے دیگر تین بھائی جعفر ،عبداللہ،عثمان ایک ہی ماں یعنی جناب ام البنین(س) کے بطن سے تھے۔ چنانچہ ابوالفضل العباس کا اپنے سامنے انہیں میدان میں بھیجنا اور ان کے داغ اپنے دل پر اٹھانا اور ان کے یتیم بچوں کو دیکھ کر صبر کرنا اسی کا نام بصیرت ہے۔
دوسری صفت جس کا تذکرہ ہمیں احادیث آئمہ(ع) اور زیارات میں کثرت کے ساتھ ملتا ہے وہ آپ کی وفاداری ہے اور آپ کی وفاداری کا سب سے بڑا مظہر آپ کا فرات میں داخل ہوجانا اور پیاسہ ہونے کے باوجود پانی نہ پینا ہے۔البتہ مشہور یہی ہے کہ امام حسین(ع) نے آپ کو پانی لینے کے لئے بھیجا تھا لیکن جو چیز میں نے معتبر کتابوں جیسا کہ ارشاد مفید اور لہوف ابن طاؤوس میں پڑھی ،اس میں مشہور روایت سے کچھ فرق پایا جاتا ہے اور شاید اگر اس پر توجہ کی جائے تو اس سے ماجرے کی اہمیت اور حساسیت کا اندازہ آسانی کے ساتھ لگایا جاسکتا ہے۔
چنانچہ ان مذکورہ دونوں کتابوں(لہوف اور ارشاد) میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ اس آخری گھڑی اور لمحات میں بچوں پر اس قدر پیاس طاری ہوچکی تھی کہ بچے اب خود امام حسین(ع) اور حضرت ابوالفضل العباس(ع) سے پانی کا مطالبہ کرنے کے لئے پہونچ گئے۔
اور حضرت ابوالفضل العباس اکیلے نہیں گئے بلکہ امام(ع) بھی آپ کے ساتھ گئے چنانچہ یہ دونوں شجاع بہادر اور دلیر بھائی میدان میں لڑتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔اگرچہ امام حسین(ع) تقریباً ساتھ برس کے ہیں لیکن طاقت اور شجاعت میں عرب کے درمیان آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔
اور دوسرا بھائی عباس بھی تیس برس کا جوان ہے ان تمام خصوصیات کے ساتھ جن سے سب آپ کو پہچانتے تھے۔چنانچہ یہ دونوں بھائی پشت سے پشت ملا کر لڑتے ہوئے صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ فرات تک پہونچ سکیں۔اور بچوں کے لئے پانی لے آئیں۔ لیکن اسی شدت کی جنگ میں امام حسین(ع) یہ احساس کرتے ہیں کہ میرے اور عباس کے درمیان دشمن حائل ہوچکے ہیں اور اسی ہنگام حضرت ابوالفضل(ع) دریا سے نزدیک ہوجاتے ہیں مشک بھرتے ہیں تاکہ خیموں تک پانی پہونچ جائے۔ لیکن پیاسہ ہونے کے باوجود عباس(ع) نے پانی نہیں پیا۔
چنانچہ یہ وہ حساس موقع ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے کو یہ حق دیتا ہے کہ جب دریا تک پہونچ جائے تو وہ ایک چلو پانی پی لے ۔لیکن آپ نے اس مقام پر اپنی وفاداری کا ثبوت دیا چنانچہ جب آپ نے پانی کو اٹھایا اور آپ کی نظریں پانی پر پڑیں ’’فَذَکر عطش الحسین‘‘امام حسین(ع) کی پیاس یاد آگئی شاید اطفال حسینی کے خشک ہونٹ یاد آگئے شاید علی اصغر کا تڑپنا یاد آگیا۔ لہذا آپ نے پانی کو دریا کے منھ پر ماردیا اور باہر نکل آئے۔اور پھر اس کے بعد وہ رخداد پیش آئی کہ جس کے بارے میں آپ سب جانتے ہیں کہ اچانک امام حسین(ع) کے کانوں میں حضرت ابوالفضل العباس کی فریاد ٹکرائی۔( یا اخا ادرک اخاک) اے بھائی اپنے بھائی کو مدد کو پہونچئے۔


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین