ولایت پورٹل: پیغمبر اکرم(ص) سے منقول ایک معروف حدیث میں ملتا ہے:’’الکاسبُ حبیبُ اللہ‘‘ کام کرنے والا اللہ کا دوست ہے اگر ہم آپنی ظاہری آنکھوں کو بند کرکے اپنے دل کی آنکھوں کو کھول کر کچھ دیر کے لئے فکر کے دریا میں غوطہ زن ہوجائے تو ہمیں اس حدیث کے عمق کا اندازہ ہوجائے گا اگر ہم غور کریں تو یہ ہمارے اطراف میں موجود دوکانیں اور کام کرنے والے نہ ہوں مثال کے طور پر یہ بال کاٹنے والا،یہ سبزی بینچنے والا،یہ گاڑی صحیح کرنے والا،یہ پرچون والا غرض دیگر شعبوں میں کام کرنے والے افراد نہ ہوتے تو ہم اپنی زندگی کی ضرورتیں کیسے پورا کرتے؟ نتیجہ یہ ہوتا کہ قدیم زمانے کی طرح ہمیں اپنی ضرورتیں خود ہی پورا کرنا ہوتیں تو ہم کیا کرتے؟
ایک مرتبہ رسول اکرم(ص) سے پوچھا گیا کہ کون سا کام افضل ہے تو آپ نے فرمایا روقِ حلال کمانا سب سے عمدہ عمل ہے۔اب ظاہر ہے رزقِ حلال کےحصول کے لئے ایک معین پیشے کی ضرورت ہے۔یاد رہے کہ انسان کے اقتصاد اور معاش کی بنیاد مختلف پیشوں پر ہے۔ان میں سے کوئی بھی پیشہ اگر معاشرے سے نفی کر دیا جائے تو معاشرے کی ہیئت ترکیبی ادھوری رہ جاتی ہے اور یہ اللہ کی منشأ اور سنتِ قائمہ کے خلاف ہے۔سو کسی پیشہ کو حقیر جاننا اللہ کی حکمتِ بالغہ سے بغاوت ہے ۔جس کی گنجائش کم از کم دین میں نہیں۔
اللہ تعالٰی جلیل نے فرمایا ہے:“ہم نے تم کو پیدا کیا اور تمہارے لئے شرعی اور کسبی راستے رکھے”ان تمام چیزوں کے لئے اللہ نے ایک نظامِ اعتدال اور میزان بنایا تا کہ نظم و ضبط کی صورت میں قائم رہے۔ اور یہ سب دراصلManagement System پر دلالت کرتے ہیں،قرآن مجید میں ارشاد ہے:“لَیَجعَلَ بَعضُکُم بَعضاً سُخرِیّاً”
یہ نظام اس لئے وضع فرمایا کہ تم میں سے بعض کو مسخر (Manage) کر سکیں ۔یہ دراصل Team Workاور Joint Venture کی طرف اشارہ ہے۔
غرض! یہ مختلف کاموں میں مشغول کاریگر و کام کرنے والے زحمتیں کرتے ہیں ان لوگوں کے زحمات کی برکت سے ہمارے بہت سے کام بآسانی انجام پاجاتے ہیں شاید اسی وجہ سے کام کرنے والے کو حبیب خدا کہا گیا ہے چونکہ بندگان خدا کی خدمت کرنا اور ان کی زندگی کے مشکلات کو برطرف کرنا بھی اللہ کی قربت کا ایک ذریعہ ہے اور بازار میں اپنی اپنی دوکانوں پر بیٹھے ہوئے یہ لوگ انسانیت کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں لیکن یہاں پر ایک اہم سوال یہ پیش آتا ہے کہ کون سا کام کرنے والے اللہ کے دوست ہیں؟ یا جو بھی کوئی بازار مسلمین میں آکر کسی کام میں مشغول ہوجائے تو کیا وہ اپنے آپ کو اللہ کا حبیب ہونے کی لوریاں دیتا رہے؟ کیا وہ لوگ کہ جو اپنے مشاغل کے سبب لوگوں کو مشقت و زحمات میں ڈالتے ہیں وہ بھی حبیب خدا ہوسکتے ہیں؟
بے شک اللہ کی دوستی اتنی آسان نہیں ہے بلکہ اس کے لئے لیاقت کی ضرورت ہوتی ہے ایسی لیاقت جو صداقت اور سچے دل سے لوگوں کی خدمت کرنے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے اور جس کے لئے ضمیر و وجدان کا بیدار و آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔
خاص طور پر جب مہنگائی اپنے عروج پر ہو اور لوگ مالی مشکلات میں گرفتار ہوں تو ایسے میں بہت سے کام کرنے والے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیتے ہیں کہ ان کا شمار اس گروہ میں نہیں ہوتا جو حبیب خدا کا درجہ رکھتے ہیں چنانچہ بظاہر بازار مسلمین میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن مہنگائی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور لوگوں کی زندگی کو سخت سے سخت بنا رہے ہیں خاص طور پر یہ تین گروہ:
ذخیرہ اندوز: جب کسی معاشرے میں اقتصادی بحران پیدا ہوجاتا ہے تو ذخیرہ اندوز لوگ سرعت کے ساتھ اس کیچڑ سے مچھلی پکڑنے کے فراق میں لگ جاتے ہیں چونکہ کچھ لوگ اور دوکاندار ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب اقتصادی حالات بگڑے اور کب ہم اپنے ذخیرہ کا منھ بھر لیں اور پھر وقت آنے پر 9 کا مال 100 میں فروخت کیا جائے گویا وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ کوئی اسے دیکھ نہیں رہا ہے اور کوئی اس کا دامن نہیں پکڑ پائے گا۔
مہنگا بیچنے والے: آپ کے سامنے بھی ایسے کئی مواقع آئے ہونگے کہ آپ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کوئی ضروری سامان خریدنا چاہتے ہوں تو قیمتیں سُن کر آپ کے ہوش ہی اڑ گئے ہونگے لیکن جب آپ اسی سامان کو لینے کے لئے کسی دوسری دوکان پر گئے ہونگے تو وہاں آپ کو قیمت مناسب معلوم ہوئی ہوگی اور آپ نے خرید لیا ہوگا۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج جب عید یا کسی خوشی کی تاریخ کا زمانہ قریب ہوتا ہے گویا پورے بازار میں ایک آگ سی لگی ہو اور لوگوں کی روز مرہ کی ضرورتوں کا سامان اس آگ میں جلنے لگا ہو چونکہ یہ لوگ غریب عوام کا استحصال کرتے ہیں تاکہ اپنے منھ مانگے داموں پر چیزوں کو فروخت کر کالا بازاری اور بحران کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ مال بینچنے والے خود مالک نہیں ہوتے بلکہ بازار میں بیٹھے سرمایہ داروں کے دلال ہوتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بازار کا اتار چڑھاؤ انہیں دلالوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔لہذا یہ لوگ بھی حبیب خدا نہیں ہوسکتے۔
کم تولنے والے اور خراب اشیاء بیچنے والے: قرآن مجید نے کم تولنے والے ڈنڈی ماروں کے واسطے ویل کی لفظ استعمال کی ہے:’’ویل للمطففین‘‘ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ بہت سے دوکاندار اپنی ترازو میں کوئی ایسی کارستانی کرتے ہیں کہ ہر ایک تول میں انھیں اگرچہ صرف ۵۰ گرام ہی ملتا ہو لیکن وہ اسی تھوڑی سی ڈنڈی سے بہت سا غیر قانونی و غیر شرعی سرمایہ اکھٹا کرلیتے ہیں۔ اور مارکیٹ میں کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی گلی سڑی اور خراب چیزوں کو اچھی چیزوں سے پہلے بیچنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے خریدار کو ضرر ہوجائے لیکن انہیں کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔اور خاص طور پر غذائی اشیاء اور پھلوں وغیرہ میں یہ مسئلہ بڑی کثرت کے ساتھ نظر آتا ہے مثال کے طور پر ایک شخص دو کیلو اچھے پھل خریدنے کی نیت سے ایک دوکان پر جاتا ہے اور اس اطمینان سے کہ اس نے ایک اچھی دوکان سے اچھے داموں میں پھل خریدے ہیں لیکن جب گھر پہونچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی تھیلی میں کئی خراب پھل بھی ہیں ایسے دوکانداروں کو جان لینا چاہیئے کہ اللہ ان خریداروں کی طرف سے وکیل ہے اور جن لوگوں نے اپنی چیزوں کو کم تول کر بیچا ہے اللہ انہیں شدید عذاب میں مبتلاء کرے گا۔
لیکن آخر میں اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کرتے چلیں کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے ایماندار دوکاندار موجود ہیں جو حلال و حرام کی رعایت کرتے ہیں اور ہمیشہ رزق حلال کی تلاش میں رہتے ہیں حقیقت میں یہی وہ لوگ ہیں کہ جنہیں حدیث میں ’’الکاسبُ حبیبُ اللہ‘‘ کہا گیا ہے البتہ؛ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن وہ لوگ کہ جو اقتصادی مشکلات کو عوام کے استحصال کے لئے فرصت تصور کرتے ہیں ان کی زندگی میں کوئی برکت نہیں ہوتی اگرچہ ظاہر میں وہ بہت سا مال اکھٹا کرلیتے ہیں لیکن زندگی میں ہمیشہ پریشان ہی رہتے ہیں۔
پس اللہ کا حبیب بننا اتنا آسان نہیں ہے بلکہ حلال کمائی کرنے والا ہی اللہ کا حبیب ہوتا ہے اور یہ آسان نہیں ہے بلکہ رزق حلال کمانا جنگ لڑنے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے جب اپنے غلام مصادف کو مصر جاتے ہوئے تجارت کے لئے کچھ دینار دیئے اور جب اس نے واپس آکر امام کی خدمت میں ہر دینار کے عوض ایک دینار فائدے کا دیا تو آپ نے اس رقم کو قبول نہیں کیا اور فرمایا: اے مصادف! رزق حلال کمانا،دشمن کے سامنے تلوار لیکر جنگ کرنے سے زیادہ سخت ہے۔(الحياة ج ۵ ،ص ۵۷۶)
برسر روزگار انسان، اللہ کا دوست
آج بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے ایماندار دوکاندار موجود ہیں جو حلال و حرام کی رعایت کرتے ہیں اور ہمیشہ رزق حلال کی تلاش میں رہتے ہیں حقیقت میں یہی وہ لوگ ہیں کہ جنہیں حدیث میں ’’الکاسبُ حبیبُ اللہ‘‘ کہا گیا ہے البتہ؛ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن وہ لوگ کہ جو اقتصادی مشکلات کو عوام کے استحصال کے لئے فرصت تصور کرتے ہیں ان کی زندگی میں کوئی برکت نہیں ہوتی اگرچہ ظاہر میں وہ بہت سا مال اکھٹا کرلیتے ہیں لیکن زندگی میں ہمیشہ پریشان ہی رہتے ہیں۔

wilayat.com/p/494
متعلقہ مواد
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین