آج کے جوان کی انٹرنیٹ سے وابستگی کا المیہ(2)

آج جبکہ انٹرنیٹ ایک اہم اور کاروباری ضرورت بن چکا ہے اور دوسری طرف یہود و نصاری نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسلامی تہذیب و اقدار کو تباہی کے دھانے تک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے تو ایسی صورتِ حال میں بحیثیت مسلمان ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بساط کی حد تک انٹرنیٹ کے استعمال کا صحیح رخ متعین کرے، بلا ضرورت اس کے استعمال سے اپنا وقت ہرگز ضائع نہ کرے، خاص طور اپنی اولاد کو حتی الامکان اس سے دور رکھے۔

ولایت پورٹل: آج کا جوان چاہے کالج میں ہو،یا یونیورسٹی کی کلاس میں،گھر میں ہو یا بس اور گاڑی و ٹرین میں، چاروں طرف سے ڈیجیٹل میڈیائی وسائل نے اس کا محاصرہ کررکھا ہے۔جیسا کہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ،ویڈیو گیم،موبائل اور دیگر روابط عامہ کے وسائل کی اس کے پاس بہتات ہے،چنانچہ مارک برنسکی کمپیوٹر گیم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آج کے بچے اور نوجوان ڈیجیٹل میڈیا کے فرزند ہیں،یہ بچے ڈیجیٹل دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور مکڑی کے جالہ کی طرح ان کے چاروں طرف ڈیجیٹل اشیاء موجود ہیں اور خاص طور پر وہ بچے جن کے والدین اس دنیا سے کچھ دور ہیں ان کے بچے زیادہ اشتیاق سے اس دنیا سے ملحق ہوجاتے ہیں اور اس حد تک اس دنیا سے مأنوس ہوجاتے ہیں کہ گوگل،ویکی پیڈیا کے بغیر انہیں زندگی کا کوئی مفہوم ہاتھ نہیں آتا۔
آج جوانوں کی انٹرنیٹ سے وابستگی کے سبب جو منفی اثرات ظاہر ہورہے ہیں ان میں فکری،اور ڈپریشن کا شکار بچوں کی تعداد قابل ملاحظہ ہے،اور بچوں کا انٹرنیٹ پر مصروف رہنے کے سبب ان کی جسمانی فعالیت،اور بدنی ورزش نہ ہونے کے برابر ہوچکی ہے،آج بہت سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں والدین اپنے بچوں کی صحت کو لیکر بہت پریشان ہیں لہذا وہ ان کو موٹاپے ، ڈپریشن وغیرہ کی بیمارویوں سے بچانے کے لئے بہت سا پیسہ خرچ کرنے پر مجبور ہیں اور شاید ان آخری دس برسوں میں بہت ہی کم نوجوان اور جوان ایسے ہونگے جو موٹاپے کی تکلیف نہ جھوج رہے ہوں۔
انٹرنیٹ کی وابستگی نے بچوں اور نوجوانوں کو اپنے دوستوں اور ہم سن و سال بچوں اور جوانوں کے جھرمٹ سے نکال کر ان کو حقیقی کھیل کود اور ورزش کے سامان سے جدا کردیا ہے اور آہستہ آہستہ یہ گوشہ نشین ہوکر بیٹھ گئے ہیں اور دوسرے لوگوں سے بات چیت کرنے میں انہیں اب ڈر،اور شرم محسوس ہوتی ہے۔ گویا انٹرنیٹ کے استعمال کے سبب اجتماعی روابط کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں اور ایسے لوگ کبھی مجازی اور غیر حقیقی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں نہیں جی سکتے۔
انٹرنیٹ کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء انٹرنیٹ سے اپنے مقالے سے متعلق مواد تلاش کر کے ایک ضخیم مقالہ تیار کر لیتے ہیں۔ جس سے تحقیق و تدقیق کا ذوق فنا ہو کر رہ گیا۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے عام ہونے سے معاشی دھاندلیاں اور ناجائز کاروبار نے بڑا فروغ پایا ہے چنانچہ جلد دولت مند بننے کے چکر میں فریب اور دھوکہ دہی کے نئے نئے طریقے بھی اسی انٹرنیٹ کی پیداوار ہیں۔نیز انٹرنیٹ کی خاص برائیوں میں فحش گانے، بلو فلمیں، بے حیائی کے مناظر، اشتہارات کے نام پر بے پردگی اور عریانیت وغیرہ بھی شامل ہیں اور انہی مفاسد کی بدولت آج کی نوجوان نسل میں بے حیائی کا ایسا بازار گرم ہے کہ اس کا تصور کرتے ہوئے بھی آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس فحاشی اور عریانی کے نتیجے میں معاشرے میں جو مفاسد جنم لے رہے ہیں اس کا بھی ہر شخص کو مشاہدہ ہے۔
اس کے علاوہ بھی ہزار ہا نقصانات انٹرنیٹ کی بدولت رونما ہو رہے ہیں، لہذا آج جبکہ انٹرنیٹ ایک اہم اور کاروباری ضرورت بن چکا ہے اور دوسری طرف یہود و نصاری نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسلامی تہذیب و اقدار کو تباہی کے دھانے تک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے تو ایسی صورتِ حال میں بحیثیت مسلمان ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بساط کی حد تک انٹرنیٹ کے استعمال کا صحیح رخ متعین کرے، بلا ضرورت اس کے استعمال سے اپنا وقت ہرگز ضائع نہ کرے، خاص طور اپنی اولاد کو حتی الامکان اس سے دور رکھے۔

0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین