آج کے جوان کی انٹرنیٹ سے وابستگی کا المیہ(1)

اکثر ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ نوجوانی ہر شخص کے لئے ایک اہم دور ہوتا ہے چونکہ اسی میں انسان کو زندگی کے سب سے پہلے ابتدائی تجربات حاصل ہوتے ہیں ،اسی دور میں انسان اپنے مستقبل کی عمارت کو تعمیر کرنے کا عزم کرتا ہے لیکن اگر یہی حساس زمانہ اور دور انٹرنیٹ پر فضول میں گذر جائے تو ظاہر ہے وہ جوان نسل اپنے مستقبل کو تعمیر نہیں کرسکتی۔لہذا والدین بھی کسی حد تک اس معاملہ میں بے تقصیر نہیں ہیں،انہیں کم از کم نوجوانی کی منازل تک اپنے بچوں کی درست رہنمائی کرنی چاہیئے وگرنہ مذاق مذاق میں نہ جانے کتنی نسلیں بربادی کے کگار تک پہونچ جائے گی۔

ولایت پورٹل: ہماری اجتماعی زندگی میں بہت سی چیزیں جیسے ہی داخل ہوتی ہیں وہ ہمارے لئے اتنی اہم ہوجاتی ہیں کہ اب ان کو چھوڑ دینا اور ترک کردیا ہمارے لئے ممکن نہیں ہوتا،انٹرنیٹ بھی انہیں چیزوں میں سے ایک ہے جسے ہماری زندگی میں آئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے لیکن ہم اس سے اتنا وابستہ ہوگئے ہیں کہ ہمارے معاشرے کا ہر چھوٹا، بڑا، جوان پیر، مرد اور عورت اس کے چنگل میں اس طرح گرفتار ہوچکا ہے کہ آج ہمارے لئے یہ تصور کرنا بھی دشوار ہوگیا ہے کہ کیا اگر یہ انٹرنیٹ ختم ہوجائے تو کیا ہم ایک دن بھی زندہ رہ پائیں گے یا نہیں؟
اگرچہ انٹرنیٹ نے دیگر ٹیکنالوجی کی طرح انسان کے لئے بہت سی سہولیات بھی پیدا کی ہیں لیکن اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں اور اس میں کجروی اور انحراف کے مواقع بہت زیادہ پائے جاتے ہیں میں تو اس کی مثال شراب اور نشے سے دوں گا جس طرح اگر کوئی انسان نشے کا عادی ہوجائے تو اس سے پیچھا چھوڑوانا دشوار ہوجاتا ہے۔ شاید اسی طرح ہماری زندگی میں انٹرنیٹ نے آج ہمیں اپنا عادی بنا لیا ہے۔
لیکن پھر بھی ہم یہ بات ضرور کہیں گے کہ اس کی تأثیر ہر فرد پر ایک جیسی نہیں ہوتی مثلاً وہ جوان جنہیں اپنے کیرئیر اور مستقبل پر زیادہ محنت کرنی چاہیئے ان کا بڑا وقت اس وقت انٹرنیٹ پر گذر رہا ہے اگرچہ آج کل بڑے بزرگ بھی مستثنٰی نہیں ہیں لیکن یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ شاید ان کے یہاں انٹرنیٹ کی نسبت وہ حساسیت نہ پائی جائے جو آج کل کے جوانوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
آج دنیا میں تقریباً ایک چوتھائی انٹرنیٹ استعمال کرنے والے لوگ نشے کی طرح انٹرنیٹ کے عادی ہوچکے ہیں اور یہ اعداد و ارقام تقریباً 15 سال سے 18 سال کی عمر کے لوگوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں لہذا وہ بُرے اثرات جو انٹرنیٹ کے استعمال سے مرتب ہوتے ہیں مثال کے طور پر انٹرنیٹ پر وقت کی زیادہ بربادی، بدنی فعالیت اور ورزش کے رجحان میں کمی،زندگی کی دیگر حیاتی چیزوں سے گریز،اجتمعاعی تعلقات و روابط کا گرتا ہوا معیار، گھر والوں اور دوستوں کے لئے وقت کی قلت،اور خود انٹرنیٹ کے مالی اخراجات،اور سب سے اہم چیز تعلیمی میدان میں پسماندگی وغیرہ وغیرہ وہ برے اثرات ہیں جو انٹرنیٹ کے سبب آج ہمارے معاشرہ اور خاص طور پر ہمارے جوانوں کو لاحق ہورہے ہیں۔
حال حاضر میں نوجوانوں اور جوانوں کا قیمیتی وقت فضول کی فلموں اور  سیریل،آن لائین کھیل،سوشل میڈیا جیسا کہ فیس بک،ٹوئیٹر، انسٹاگرام  وغیرہ پر گذر رہا ہے۔
البتہ ہم انٹرنیٹ کی افادیت سے انکار نہیں کررہے ہیں چونکہ جو کام گذشتہ زمانے میں بڑا سرمایہ خرچ کرکے انجام دیا جاتا تھا وہ آج با آسانی انٹرنیٹ کے ذریعہ انجام پانے لگا ہے جیسا کہ آن لائین لیکچر،اور اچھے اساتذہ سے پڑھنا اور مختلف شعبوں میں دقیق معلومات کا حصول اس کے بہتر استعمال کے نمونہ ہوسکتے ہیں۔
اکثر ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ نوجوانی ہر شخص کے لئے ایک اہم دور ہوتا ہے چونکہ اسی میں انسان کو زندگی کے سب سے پہلے ابتدائی تجربات حاصل ہوتے ہیں ،اسی دور میں انسان اپنے مستقبل کی عمارت کو تعمیر کرنے کا عزم کرتا ہے لیکن اگر یہی حساس زمانہ اور دور انٹرنیٹ پر فضول میں گذر جائے تو ظاہر ہے وہ جوان نسل اپنے مستقبل کو تعمیر نہیں کرسکتی۔لہذا والدین بھی کسی حد تک اس معاملہ میں بے تقصیر نہیں ہیں،انہیں کم از کم نوجوانی کی منازل تک اپنے بچوں کی درست رہنمائی کرنی چاہیئے وگرنہ مذاق مذاق میں نہ جانے کتنی نسلیں بربادی کے کگار تک پہونچ جائے گی۔
بس آخر میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی(رح) کا ایک جملے سے اپنی بات ختم کرتے ہیں،آپ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ کسی بھی ٹیکنالوجی کا استعمال غلط نہیں ہے البتہ اس سے وابستگی اچھی چیز نہیں ہے۔
بس رہبر کبیر کے فرمان سے الہام لیتے ہوئے ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ  انٹرنیٹ کا بجا استعمال کیا جائے اور کرنا بھی چاہیئے لیکن غلط اور بے جا استعمال اور اس کی وابستگی سے بہر حال دامن بچانے کی ضرورت ہے۔



0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین