اسلامی انقلاب؛مسائل اور معنویت

درحقیقت اسلامی انقلاب ایسی آگاہانہ اور اعتقادی تحریک ہے جس کا مقصد الٰہی احکام کی ترویج و اشاعت ہے۔ ایرانی قوم نے ملک کے استقلال، ملت کی آزادی اور کلمۂ خداوندی کی عظمت و سربلندی کی بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے کے لئے خود کو پوری طرح آمادہ کرلیا ہے اور اب تک بہت بڑی قیمت ادا کرچکی ہے لیکن یہ قوم اپنے اعتقاد کے مطابق غور وفکر کرتی ہے اور اپنے مکتب و رہبر کی ہدایت کے مطابق عمل کرتی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس کا قائد گزشتہ پچاس سال سے اب تک جو کچھ کہتا ہے اسی پر عمل کرتا ہے اور برسوں پہلے اپنی زبان سے جو بات کہی تھی اس پر آج بھی اٹل اور ثابت قدم ہے۔

ولایت پورٹل: اسلامی جمہوریہ ایران نے انقلاب سے اب تک جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کی عظمت و اہمیت سے انکار ناممکن ہے ،لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ اعتراف بھی لازمی ہے کہ ابھی اسلامی حکومت کے تمام اصول و ضوابط کو پوری طرح اور ہر اعتبار سے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا ہے لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جملہ سماجی معاملات کو تعلیمات عالیہ اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے بنیادی وسائل و امکانات فراہم کئے جاچکے ہیں۔
گزشتہ چالیس سال کے دوران ہر روز ایک نئی سامراجی سازش کا مقابلہ کرتے ہوئے معاشرہ سے سامراجی ثقافت کی مکمل بیخ کنی اور پوری طرح آزاد اقتصادی و صنعتی منصوبہ بندی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر اس قوم کے پاس حیرت انگیز ثقافتی سرمایہ نہ ہوتا اور اس کو اپنے باشعور قائد کی دانشمندانہ قیادت حاصل نہ ہوتی تو یہ قوم نت نئی اور رنگ برنگی خطرناک اور مہلک سازشوں کا مقابلہ ہرگز نہ کرپاتی۔ اس کے علاوہ دنیا کے اس گوشے میں بڑی طاقتوں کے مفاد و مصالح کی جڑیں اتنی گہرائی میں پھیلی ہوئی ہیں کہ کوئی انقلاب چاہے کتنا ہی اساسی اور مستحکم کیوں نہ ہو ان مفاد و مصالح سے پوری طرح الگ نہیں رہ سکتا۔یہ تو عظیم اسلامی تحریک کا مثالی استحکام و ثباتِ قدم ہے جس نے اس ملک پر اپنے دیرینہ تسلط کے احیاء کے سلسلے میں عالمی سامراج کی ہر کوشش کو ناکام اور اس کے ہر منصوبہ کو نقش بر آب کردیا ہے اور یہ تحریک آئندہ بھی ان کی شرمناک سازشوں کو پوری طرح نابود کردے گی۔
انقلابی نظام کے تعمیر نو کی روش بھی بین الاقوامی کفر کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ نہیں رہی ہے۔ چنانچہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس مختصر سے وقفہ میں اسلامی جمہوریہ ایران اقتصادی ناکہ بندی سے لے کر مسلط کردہ جنگ جیسے خطرناک و مہلک سامراجی دباؤ کا سامنا کرتا رہا ہے۔ شرعی حدود کے اجراء کے سلسلے میں بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کی طرف سے عالمی سطح پر اسلامی نظام کی مذمت، حملہ آور کی تنبیہ جیسی اسلامی جمہوریہ ایران کی معقول شرائط کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی طاقتوں کی مسلط کردہ صلح کی حمایت میں بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے جاری کی جانے والی قرار دادوں کی بھرمار، علاقے میں عرب قومیت کے فروغ کی ناکام کوشش، عرب اور غیر عرب مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی، ایران کو عالم اسلام سے الگ تھلگ رکھنے کے لئے غاصب اسرائیلی حکومت کے ساتھ اس کے خفیہ گٹھ جوڑ کا بے بنیاد پروپیگنڈہ، حقیقی اسلام کے خلاف درباری علماء کی صف آرائی اور آخر کار سامراجی خبررساں اداروں کی طرف سے امام خمینی(رح) کے بعد حصول اقتدار کے لئے ایرانی حکام کے درمیان اندرونی اختلافات کرانے کی سازش اور اس کی نمائش اور امام خمینی(رح) کی بیماری کے سلسلے میں کئے جانے والے جھوٹے، بے بنیاد اور بیہودہ پروپیگنڈوں کی بھرمار سامراجی طاقتوں کی نئی اور پرانی اسلام دشمن سازشوں کا اہم حصہ ہیں اور سردست ان سازشوں کا یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دنیائے سامراجیت اور اس کے غلاموں کی طرف سے کی جانے والی جملہ سازشوں کے حقیقی جوہر کو ایرانی عوام کی الٰہی تحریک کی ہویت میں تلاش کرنا چاہیے۔یہ ایک فطری بات ہے کہ یہ لوگ ایران یا ایرانیوں کے مخالف نہیں ہیں بلکہ مختلف تاریخی اور علاقائی دلائل کے بموجب معاملہ اس کے بالکل ہی برعکس ہے اور حقیقت یہ ہے کہ دنیائے سامراج ایران کے اسلامی نظام پر حکم فرما اعتقاد کی مخالف ہے۔ بے شک اگر ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘کا نعرہ نہ ہوتا یا اگر یہ اعتقاد نعرہ کی حد سے تجاوز نہ کرتا اور عملی جامہ نہ اختیار کرتا تو ایران جس طرح انقلاب سے پہلے دنیائے سامراجیت کی آنکھوں کا تارا تھا اور جس طرح بعض اسلامی ممالک کے نام نہاد مسلمان حکمراں سامراجی دنیاکو بے حد عزیز ہیں، بالکل اسی طرح ایران بھی انھیں بے پناہ عزیز ہوتا۔ پھر نہ ایران کے مظلوم عوام پر کوئی جنگ مسلط کی جاتی اور نہ کسی ناکہ بندی کا سوال پیدا ہوتا۔ نہ اس ملک پر بعثی فوج کے وحشیانہ حملہ کی پلاننگ کی جاتی اور نہ اس کے شہروں اور دیہاتوں پر بمباری کی جاتی۔ جنگ کے ابتدائی مراحل میں نہ اس ملک کے غیر فوجی شہریوں اور بوڑھی عورتوں کو اسیری کا منہ دیکھنا پڑتا اور نہ شہر دزفول کے بہادر شہریوں کو جنگ کے ابتدائی چار برسوں کے دوران۱۵۰ مہلک میزائلوں کا سامنا کرنا پڑتا۔نہ خرم شہر ویران ہوتا اور نہ اصفہان ، آبادان، دزفول، اور شوشتر میں تاریخی عمارتوں کی تباہی ہوتی، نہ اسپتالوں پر کیمیاوی بم برسائے جاتے اور نہ پاوہ وایلام ومیانہ اور دیگر شہروں میں اسکولی بچوں کو اپنا خون بہانا پڑتااور اگر اللہ اکبر کی آواز اپنی پوری معنویت کے ساتھ علاقے کی فضا میں نہ گونجتی تو آج ان لوگوں کو ان مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ درحقیقت نعرۂ’’اللہ اکبر‘‘ ان سامراجی طاقتوں کی نظر میں’’گناہ عظیم!!‘‘کا درجہ رکھتا ہے، اسی وجہ سے یہ طاقتیں ایران پر بڑے بڑے ظلم کو جائز قرار دیتی ہیں۔
درحقیقت اسلامی انقلاب ایسی آگاہانہ اور اعتقادی تحریک ہے جس کا مقصد الٰہی احکام کی ترویج و اشاعت ہے۔ ایرانی قوم نے ملک کے استقلال، ملت کی آزادی اور کلمۂ خداوندی کی عظمت و سربلندی کی بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے کے لئے خود کو پوری طرح آمادہ کرلیا ہے اور اب تک بہت بڑی قیمت ادا کرچکی ہے لیکن یہ قوم اپنے اعتقاد کے مطابق غور وفکر کرتی ہے اور اپنے مکتب و رہبر کی ہدایت کے مطابق عمل کرتی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس کا قائد گزشتہ پچاس سال سے اب تک جو کچھ کہتا ہے اسی پر عمل کرتا ہے اور برسوں پہلے اپنی زبان سے جو بات کہی تھی اس پر آج بھی اٹل اور ثابت قدم ہے اور کوہ ہمالیہ کی طرح اپنے اسلامی موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ اگر آج سے تیس سال قبل اسرائیل کو اسلام، امت اسلامیہ اور عربوں کا دشمن کہا ہے تو آج بھی صہیونیت کے خلاف جدوجہد میں ناقابل فتح محاذ کی حیثیت سے اپنی جگہ پر اٹل اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں سرگرم ہے۔ اگر آج سے برسوں پہلے پردہ کے پیچھے پوشیدہ سامراجی ہاتھوں کو اپنی فراست ایمانی کے ذریعہ دیکھ لیتا تھا اور ان کے خلاف آواز بلند کرتا تھا تو آج بھی انھیں’’ شیطان بزرگ‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے اور مراسم حج کے دوران ان شیاطین کومار بھگانے کا حکم صادر کرتا ہے اور وحدت آفریں مراسم حج کے دوران امت اسلامیہ کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اس وقت جب کہ ہماری موجودہ نسل گہوارہ میں تھی یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ’’ہمیں قتل کرڈالو، ہم راہ اسلام میں قتل ہونے سے خوفزدہ نہیں ہیں‘‘ تو آج ایک طویل مدت کے بعد اس کی زبان سے یہ کلمات جاری ہوتے ہیں کہ’’ہمیں قتل کرڈالو اس سے ہماری قوم اور زیادہ بیدار ہوجائے گی‘‘ اور ایک موقع پر اس طرح ارشاد فرماتا ہے:
’’میں نے اپنے آپ کو راہ اسلام میں قتل ہوجانے اور شہادت کے بلند مرتبہ کو حاصل کرنے کے لئے اچھی طرح آمادہ کرلیا ہے‘‘۔
اور ان کی پیروی کرنے والوں نے گزشتہ برسوں کے دوران اپنی قربانی کے ذریعے اپنے قائد کے ساتھ مثالی وفاداری کا ثبوت پیش کردیا ہے۔ یہ لوگ بھی اپنے قائد کی طرح اپنے موقف پر اٹل رہے۔ خانگی دشمنوں کو وطن کی سرحدوں سے باہر نکال دیا۔ شیطان بزرگ کے خفیہ ہاتھوں کو کاٹ ڈالا، حملہ آور پڑوسی کو پیچھے ڈھکیل کر اسے اپنی ظالمانہ حرکت پر شرمندہ و پشیماں کردیا۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں اور سامراجی ایجنٹوں کو منہ توڑ جواب دیا اور تعمیری اعتبار سے گزشتہ نو سال کے اندر وہ تعمیری خدمات انجام دیں جس کو انجام دینے کے لئے کم از کم پچاس سال کا وقت درکار ہوتا ہے۔ ایک طرف تو یہ حکومت مہلک سازشوں کے خلاف نبردآزمائی کرتی ہے تو دوسری طرف جہالت کے خلاف اس کی جدوجہد میں کوئی کمی نظر نہیں آتی ہے اور ملک کے اندر غیرتعلیم یافتہ لوگوں کی ۶۳ فیصد تعداد کو ۶ فیصد میں تبدیل کردیتی ہے۔ اسلامی انقلاب سے قبل ملک کے اکثر گاؤں اور دیہی علاقوں میں پینے کا پانی بھی بڑی مشکل سے ملتا تھا اور ہزارہا ایسے گاؤں تھے جہاں پینے کے پانی کی سہولت فراہم نہ تھی۔ لیکن آج ہمارے گاؤں کے لوگ شہر والوں کی طرح اس سہولت سے مالا مال ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کو دیکھا جائے تو انقلاب کے بعد نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت میں غیر معمولی کمی ہوگئی ہے اور اب ان کی تعداد پہلے کے مقابلے نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔اس تعداد سے اس حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران نے غیر معمولی ترقی حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ نہضت سواد آموزی، تحریک تعلیم بالغان، تنظیم جہادسازندگی، سپاہ پاسداران اور سپاہ بسیج نامی تنظیموں کی تشکیل اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہوئی ہے۔ ان تعمیری تنظیموں کی تشکیل کے ذریعہ ملت ایران نے دنیا والوں پر یہ ثابت کردیاکہ یہ ایک ایسی زندہ، بیدار اور جہاد پیہم میں مصروف قوم ہے جو ظلم اور طاقت کے بوجھ کو ہرگز برداشت نہ کرے گی اور اپنے قائدِ عظیم المرتبت کی طرح یہ قوم بھی ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں اسلحہ لئے ہوئے ہے اور ہمہ وقت اپنے قائد کی آواز پر کان لگائے ہوئے ہے اور دشمن کے خلاف مثالی نبرد آزمائی کے ساتھ ہی ساتھ ایک درخشاں مستقبل کی تعمیر میں ہمہ تن سرگرم عمل ہے۔ ہماری قوم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ جب تک وہ اپنے اعتقاد پر ثابت قدم ہے، سامراجی دنیا اور اس کے چھوٹے بڑے غلام اس کی دشمنی سے باز نہ آئیں گے لیکن اس اسلام دشمن سامراجی طاقتوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ ایران سامراجی طاقتوں کی بے شمار اسلام دشمن سازشوں کا بھرپور مقابلہ کرتا رہے گا کیوںکہ یہ اس کا مقدس الٰہی فریضہ ہے ۔اس کے ساتھ ہی ساتھ ملت ایران اپنے اعتقادات اور اپنی مذہبی تعلیمات کے بموجب دیگر اقوام عالم کے حقوق کو محترم سمجھتی رہے گی اور حقوق بشر کی حمایت کا دعویٰ کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں سے یہ امید کرتی رہے گی کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران پر مسلط کردہ مسائل و مشکلات کے سلسلے میں عادلانہ اور انصاف پسندانہ رویہ اختیار کریں گی۔ اگرچہ گذشتہ چالیس برس کے دوران دنیا کے معدودے چند مخصوص افراد کے بعض بیانات کے علاوہ ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی جس سے عدالت اور حق پسندی کا مکمل ثبوت فراہم ہوسکے۔لیکن ان بین الاقوامی تنظیموں سے پوری طرح ناامید بھی نہ ہونا چاہیے اور ان کی بے توجہی کی وجہ سے مطالبہ حق کو نظر انداز تو نہیں کیا جاسکتا۔ ملت ایران حق و انصاف پر مبنی اپنے مطالبے پر پوری طرح ثابت قدم رہے گی۔
ان کا عقیدہ ہے کہ زندگی ہمارے لئے ایک عظیم الٰہی امتحان ہے۔ یہ ہم لوگوں کو دنیا اور دنیا والوں کے ساتھ من چاہا رویہ اختیارکرنے کی اجازت نہیں دیتی بلکہ اس کی حدود متعین ہیں۔ ہم عقیدہ کی راہ میں حاصل ہونے والی شہادت کو نقصان سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ اسے عظیم اور جاودانہ رحمت خداوندی سمجھتے ہیں اور اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جب تک ہم اپنے عقیدہ و اعتقاد پر ثابت قدم ہیں سامراجی دنیا اور اس کے زرخرید غلام ہماری عداوت پر پوری طرح کمربستہ رہیں گے لیکن دنیا اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ ہمارا تعلق اس قوم سے نہیں ہے جو اپنے اعتقادی اصولوں سے دستبردار ہوجاتی ہے کیوںکہ اعتقادی اصول کا تحفظ ہمارا شرعی فریضہ ہے اور یہی ’’راہ اسلام ‘‘ ہے۔


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین